Maktaba Wahhabi

169 - 402
گرویدہ بنا لیتی تھی۔مجھے حضرت قاری صاحب سے ملنے جلنے اور اٹھنے بیٹھنے کے بہت سے مواقع بچپن ہی میں میسر آتے رہے۔میرے والد حاجی عبدالرحمان پٹوی رحمہ اللہ علمائے جماعت کا بڑا احترام کرتے۔اکثر اوقات علما کی میزبانی اور ان سے میل جول میں گزارتے۔روپڑی بزرگ حضرت العلام حافظ محمد عبداﷲ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ،ان کے معروف بھتیجے مولانا حافظ محمد اسماعیل روپڑی رحمہ اللہ اور مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ فیصل آباد میں ہمارے غریب خانے پر قیام فرماتے تھے۔ قاری عبدالخالق رحمانی کا حافظ محمد اسماعیل صاحب سے قلبی تعلق اور گہرا دوستانہ تھا۔حافظ صاحب کے ایما پر ہم نے غالباً 1960ء میں جمعیت شبان اہلِ حدیث کی سالانہ کانفرنس دھوبی گھاٹ میں ان کو مدعو کیا۔پھر فیصل آباد میں نہ صرف سالانہ کانفرنسوں،بلکہ سال کے دوران میں بہت سے تبلیغی پروگراموں میں ان کی شمولیت رہتی اور وہ اپنے مخصوص ولولہ انگیز اندازِ بیان سے سامعین کو محظوظ فرماتے۔ حضرت قاری صاحب کراچی میں ایک ملز کی مسجد صحرا میں خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرماتے تھے اور وہاں کے بعض دینی مدارس کے منتہی طلبا کی کلاسوں کو پڑھاتے بھی رہے۔وہ ایک بے باک اور خوش نوا خطیب و مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ مدرس بھی تھے۔معقولات و منقولات کی جملہ کتب کی تدریس کا انھیں کمال ملکہ حاصل تھا۔اس لحاظ سے وہ واقعتا جامع المعقول والمنقول تھے۔وہ خود جماعت کے اعلیٰ درجے کے مدرسہ رحمانیہ دہلی کے فارغ التحصیل تھے اور وقت کے جلیل القدر اساتذہ سے انھوں نے کسبِ فیض کیا تھا۔ بلند مرتبت علمی صلاحیتوں سے مالا مال حضرت قاری صاحب حسِ مزاح بھی خوب رکھتے تھے۔مادری زبان اردو میں جب باتیں کرتے تو گویا منہ سے پھول
Flag Counter