Maktaba Wahhabi

170 - 402
جھڑتے تھے۔خطابت میں تو ملک بھر میں ان کا اِک سرِفہرست نام تھا۔ ایک دفعہ ملتان کی کسی تنظیم نے قلعہ کہنہ کے قاسم باغ میں بڑی سطح کی ’’توحید کانفرنس‘‘ منعقد کی،جس میں تمام مکاتبِ فکر میں سے ایک ایک مقرر نے تقریر کرنا تھی۔اہلِ حدیث کی طرف سے قاری عبدالخالق رحمانی کو کراچی سے مدعو کیا گیا۔دیگر مقررین میں مولانا غلام اﷲ خان،مولانا شاہ احمد نورانی اور مظفر علی شمسی تھے۔منتظمین و سامعین کا کانفرنس کے اختتام پر متفقہ فیصلہ تھا کہ قاری صاحب کی خطابت کی جولانی سب سے بہتر تھی،ان کے دلائل و براہین بھی نرالے تھے اور لحنِ داودی میں قراء تِ قرآن حکیم بھی لاجواب تھی۔علامہ اقبال کے اس شعر پر انھوں نے تقریر ختم کی ع شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے راقم الحروف اس کانفرنس میں دوستوں کی ہمراہی میں شریک ہوا تھا۔یہ کوئی 1980ء کے اواخر مارچ کے پربہار دن تھے۔ 1953ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں قاری صاحب نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔1974ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں وہ مقامی علما کے ساتھ اس تحریک میں بھی پیش پیش رہے۔حافظ محمد اسماعیل روپڑی،کراچی میں جناح مزار کے بالمقابل ایک خوب صورت کوٹھی قیوم منزل کے لمبے چوڑے لان میں نمازِ تراویح میں قرآن مجید سنایا کرتے تھے۔یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔لاتعداد لوگ شہر کے اطراف و اکناف سے گاڑیوں پر اور بسوں کے ذریعے شریک ہوتے۔اس کوٹھی کے مالک حاجی عبدالقیوم مرحوم ’’قیوم ٹیکسٹائل ملز‘‘ جیسے اس زمانے کے کامیاب صنعتی ادارے کے پروپرائٹر تھے اور حافظ محمد اسماعیل کے خاص عقیدت مند تھے۔حافظ صاحب
Flag Counter