Maktaba Wahhabi

176 - 402
تھے۔میٹھی زبان میں سلجھی ہوئی گفتگو اور سنجیدہ لطائف و ظرائف خوب بیان کرتے چلے جاتے۔افطاری کے موقعوں پر جب ان حضرات میں علامہ محمد یوسف کلکتوی اور حضرت الامام مولانا عبدالستار دہلوی کی شمولیت ہو جاتی تو رونق دوبالا ہو جاتی۔بعض اوقات علمی بحث و تمحیص چھڑ جاتی تو بچپنے کے سبب ہمارے پلے کچھ نہ پڑتا،مگر بڑے محظوظ ہوتے۔ قاری عبدالخالق صاحب اور حافظ محمد اسماعیل صاحب کو قرآنِ حکیم بہت ضبط تھا۔دونوں دوست سارا دن قریباً اکٹھے گزارتے۔پانچوں نمازوں کے بعد کبھی کسی مسجد میں اور کبھی کسی کالونی یا کوٹھی میں وعظ و تقاریر کا سلسلہ جاری رہتا،مگر ہم نے نہیں دیکھا کہ انھوں نے قرآن مجید کھولا ہو اور منزل پر نظر ڈالی ہو۔رمضان المبارک ختم ہونے پر ڈیڑھ دو ماہ تک کراچی کے پارکوں،باغوں اور بڑی بڑی مساجد میں جلسوں کے پروگرام ہوتے،حضرت پیر سید بدیع الدین شاہ مرحوم بھی کبھی کبھار مدعو ہوتے۔کراچی کی مکدر فضاؤں میں توحید و سنت کی تبلیغ و اشاعت اور شرک و بدعات کی تردید میں ان عظیم راہنماؤں کا بڑا کردار ہے۔ ایک دفعہ بریلوی مناظر مولوی عمر اچھروی کراچی آ نکلا اور اس نے مناظرے کے چیلنج شروع کر دیے،بالآخر ایک عام جگہ پر طے شدہ وقت پر دونوں جانب اسٹیج لگ گئے۔قاری صاحب کی صدارت میں حافظ محمد اسماعیل صاحب نے ابتدائی دو تین ٹرنوں ہی میں اچھروی صاحب کی ایسے پکڑ کی کہ انھیں جان چھڑانا مشکل تھا،جواباً اینٹوں اور پتھروں کی بارش کر دی گئی،لیکن سامعین کا بھاری اجتماع سمجھ گیا کہ حق و صداقت کا مسلک بفضلہ اہلِ حدیث مسلک ہے۔حافظ عبدالقادر صاحب روپڑی ٹرین لیٹ ہو جانے کی وجہ سے دیر سے پہنچے۔اچھروی صاحب مع لاؤ لشکر جب میدان چھوڑ
Flag Counter