Maktaba Wahhabi

175 - 402
بندۂ عاجز نے نہیں دیکھا۔جب دونوں بھائی اسٹیج پر ہوتے تو کسی اور عالم یا مقرر کی تقریر کی حیثیت ثانوی رہ جاتی۔لوگوں کے اشتیاق اور توجہات کا مرکز یہی رہتے۔ اب آتے ہیں حضرت مولانا عبدالخالق رحمانی علیہ الرحمہ سے ہماری شناسائی کی طرف،یہ لڑکپن کے اس زمانے کی حسین یاد ہے جب راقم 1955ء میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا،جون کا مہینا،گرمیوں کی چھٹیاں تھیں،رمضان شریف بھی گزر رہا تھا کہ کراچی سے حافظ محمد اسماعیل صاحب نے بصد شفقت حکم دیا کہ کراچی آؤ اور ملک کا سب سے بڑا شہر دیکھو،چنانچہ میں اپنے دوست شیخ محمد یونس کے ہمراہ کراچی پہنچا۔ہم دونوں دن کے وقت ادھر ادھر سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے،رات کو حافظ صاحب کی امامت میں قیوم منزل پہنچ کر نمازِ تراویح میں شرکت کرتے،جہاں کراچی کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے نمازیوں کی ایک کثیر تعداد جمع ہوتی۔حضرت مولانا قاری عبدالخالق رحمانی جنھیں،اب مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرزتا اور دل غمزدہ ہے،اپنی مسجد خضرا سے تراویح پڑھا کر روزانہ قیوم منزل آ جاتے۔ قاری صاحب بلند پایہ عالمِ دین،جامع معقولات و منقولات اور درس و تدریس کے قابل ترین استاذ تھے۔اﷲ تعالیٰ نے انھیں بارعب شکل و شباہت،لمبا قد کاٹھ اور قوی جسم عطا فرمایا تھا۔مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے اور ان میں خوش طبعی و خوش اخلاقی جیسی وافر صلاحیتیں تھیں۔یوں سمجھیے﴿ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ﴾کے مصداق شخصیت تھے۔آپ کی تقریر میں شعلہ نوائی اور خطابت میں ایک خاص قسم کی یکتائی پائی جاتی تھی۔شستہ اور مادری زبان اردو اور لحنِ داودی میں قرآنی آیات کی تلاوت بڑی بہار پیدا کر دیتی۔حافظ محمد اسماعیل اس محفلِ کِشتِ زعفران کے روحِ رواں ہوتے۔ حافظ صاحب علیہ الرحمہ علم و عمل کے پیکر اور اسلامی اخلاق و اقدار کا مجسمہ
Flag Counter