Maktaba Wahhabi

189 - 402
گی۔دورانِ تقریر میں جب وہ اپنے مخصوص اور رس بھرے مترنم انداز میں قرآن پاک کی آیات کی تلاوت فرماتے تو سامعین پر ایک سحر طاری ہو جاتا اور جب نماز کی امامت کراتے تو قراء تِ قرآن کی بہار اور سوز و گداز سے رقت کا سماں بندھ جاتا۔ان کی قراء ت اور لب و لہجے کے زیرو بم میں خشوع و خضوع کا ایسا امتزاج تھا کہ ہمارے اکابر علما و صلحا بھی اس کے معترف تھے۔ انھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے کا ایک واقعہ ہمارے غریب خانے کی ایک نشست میں سنایا کہ چینیاں والی مسجد میں فجر کی نماز کی امامت حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی فرمایا کرتے تھے۔ایک روز انھیں تاخیر ہو گئی تو اساتذہ نے مجھے مصلے پر کھڑا کر دیا۔مولانا غزنوی بھی آ کر پیچھے شامل ہو گئے،سلام پھیرنے پر مولانا غزنوی اٹھے اور مجھے دیکھ کر فرمایا: ’’حافظ محمد یحییٰ! تم اتنا اچھا قرآن پڑھ لیتے ہو،آج کے بعد فجر کی نماز کے امام تم ہو گے۔‘‘ مولانا کے اس فرمان اور حوصلہ افزائی سے میرا حوصلہ بڑھ گیا۔ حضرت حافظ صاحب کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے بانیوں اور اکابر خصوصاً حضرت مولانا غزنوی اور حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کا نہ صرف اعتماد حاصل تھا،بلکہ عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود حافظ صاحب کی وہ بڑی توقیر و اکرام کرتے۔یہی وجہ ہے کہ مرکزی جمعیت کے ابتدائی دور ہی میں وہ ضلع لاہور کے،جس میں اس وقت ضلع قصور بھی شامل تھا،کئی سال تک ضلعی امیر رہے۔ دل کی دنیا میں بہت سی بھولی بسری یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔جامع مسجد اہلِ حدیث اڈاللیانی قصور میں ضلعی کانفرنس تھی۔خطبہ جمعہ مولانا غزنوی نے ارشاد فرمایا،جس میں پہلے اجلاس کی کارروائی مولانا غزنوی کی صدارت میں شروع ہوئی۔
Flag Counter