Maktaba Wahhabi

190 - 402
چند ساعتیں گزرنے پر حافظ محمد یحییٰ عزیز سامنے دروازے پر نمودار ہوئے تو مولانا غزنوی فی الفور کرسیِ صدارت چھوڑ کر آگے بڑھے۔حافظ صاحب کا انتہائی والہانہ اور مشفقانہ طور پر استقبال کیا اور انھیں اپنے ساتھ قریبی کرسی پر بٹھایا۔جب حافظ صاحب تقریر کر رہے تھے تو ان کی شیریں گفتار اور مسحور کن قراء تِ قرآن سے مولانا غزنوی کی آنکھیں پرنم تھیں۔ حضرت حافظ صاحب نوعمری ہی میں نہایت متقی،بلند اخلاق اور صفاتِ حمیدہ سے متصف تھے۔سادگی و انکساری اور عجز و تواضع کے وہ مجسم تھے۔سلف صالحین کی طرزِ بود و باش کے ساتھ ساتھ ان میں علمی وقار عمر بھر دیکھا گیا۔وہ شب زندہ دار عابد و زاہد اور صاحبِ تقویٰ عالمِ دین تھے۔ایک عرصے تک جب وہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے ناظمِ تعلیمات رہے تو ان کا جامعہ سلفیہ میں اکثر آنا جانا رہتا۔ہم دیکھتے کہ ان کے اثر انگیز اظہارِ خیال اور خیر و صلاح کی تربیتی گفتگو سے طلبا پر گہرے اثرات مرتب ہوتے۔بعد از نمازِ مغرب جامع مسجد اہلِ حدیث امین پور بازار میں خطاب کا پروگرام ہوتا،جہاں شہر و مضافات اور قرب و جوار کے دیہی علاقوں سے کثیر تعداد میں سامعین شرکت کر کے آیندہ کے تبلیغی پروگرام کے منتظر رہتے،کیوں کہ انھیں حضرت حافظ صاحب کا علم و کمال اور تقویٰ و تدین بہت متاثر کرتا اور اس کے اثرات قلب و ذہن میں راسخ ہو ہو جاتے۔ ان تبلیغی و روحانی پروگراموں کے بعد میرے والدِ مرحوم حضرت حافظ صاحب کو گھر لے آتے،اُن سے خیر و برکات کی دعائیں کراتے،چھوٹے بچوں کو دم کراتے۔یہاں تک کہ بھینس کو بھی دم کراتے۔والد صاحب کہا کرتے تھے کہ حافظ صاحب کے دم سے بھینس کے دودھ میں پہلے کی نسبت اضافہ ہو جاتا ہے۔
Flag Counter