Maktaba Wahhabi

202 - 402
فرمایا۔اس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس بیش بہا احادیث کا تحریری ریکارڈ جمع ہوا،جس میں بعض کے مخطوطے آج بھی دنیا کی لائبریریوں میں پائے جاتے ہیں،اور یہی وہ مستند ریکارڈ ہے جسے محدثین نے بے مثال احتیاط کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج کیا،جس کا اعتراف اسلام کے شدید مخالفین نے بھی کیا ہے۔ تقریب کا اختتام مفتی محمد طیب صاحب کے ارشاد کے مطابق راقم السطور کی دعا کے ساتھ ہوا،جس کے بعد مرحوم ڈاکٹر محمود احمد غازی،ڈاکٹر قاری محمد طاہر،محترم مولانا مجاہد الحسینی،جناب ڈاکٹر زاہد اشرف اور ان سطور کا راقم کھانے کی میز پر اکٹھے بیٹھے تھے،اس دوران میں بھی ڈاکٹر صاحب نہایت معلوماتی اور دلچسپ علمی گفتگو کرتے رہے۔معلوم نہیں تھا کہ ان سے یہ ملاقات اور سماعت آخری بار ہو رہی ہے۔ اخبارات میں ڈاکٹر صاحب کی اچانک وفات کی خبر پڑھ کر بہت صدمہ ہوا۔پروفیسر عبدالجبار شاکر کے انتقالِ پرملال کے بعد ڈاکٹر صاحب کے سانحۂ ارتحال سے نہ صرف ملکی،بلکہ عالمی سطح کے علمی حلقوں میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سابق صدر،سابق وفاقی وزیر مذہبی امور اور سابق خطیب فیصل مسجد تھے۔آج کل وہ وفاقی شرعی عدالت کے فاضل جج کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔وہ بہت سی کتابوں کے مصنف تھے۔وہ عالمِ اسلام میں عملی اتحاد کے داعی اور فقہی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے قریب آنے کا بے حد درد اور تڑپ رکھتے تھے،تاکہ بدلے ہوئے حالات اور تقاضوں کے مطابق اسلام کو دنیا کے لیے بطورِ نجات دہندہ پیش کیا جا سکے۔اس لحاظ سے وہ تمام مکاتبِ فکر میں یکساں احترام رکھتے تھے۔وہ عربی،اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ دوسری کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔انھوں نے متعدد کتابیں لکھیں،جن میں
Flag Counter