Maktaba Wahhabi

205 - 402
تھے۔وہ مردِ باصفا اور ولی اﷲ ہستی حضرت صوفی محمد عبداﷲ رحمہ اللہ کے دستِ راست تھے اور ان کی وفات کے بعد حقیقی جانشینی کا حق انھوں نے تا حینِ حیات ادا کیا۔حضرت صوفی صاحب کی ہمراہی میں اوڈانوالہ اور پھر ماموں کانجن میں دار العلوم کی عمارات و تعلیمات اور تمام شعبوں کی ترقیات کے لیے انھوں نے شب و روز ایک کیے رکھا۔ برسوں کی بات ہے،حضرت صوفی صاحب کی معیت میں وہ ماہِ رمضان المبارک میں مسجد رحمانیہ مندر گلی میں ڈیرے ڈال دیتے۔نہ کسی دکان پر جانے کی ضرورت اور نہ ہی کسی سے چندہ مانگنے کی حاجت،بس شہر اور مضافات سے لوگ کھنچے چلے آتے۔صوفی صاحب کی جھولیاں نوٹوں سے بھری دیکھی جاتیں اور مولانا عبدالقادر ندوی رسیدیں لکھتے لکھتے تھک جاتے۔تین چار روز قیام رہتا۔راتوں کا قیام مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف کے پاس یا حاجی غلام محمد کے مکان پر ہوتا۔گاہے بہ گاہے یہ سعادت ہمارے غریب خانے کے حصے میں بھی آ جاتی۔والد علیہ الرحمہ ان کی دل و جان سے خدمت کرتے اور دعائیں لیتے۔صوفی صاحب کی پارسائی،زہد و تقویٰ اور ذکر و اذکار کی محفلیں جن لوگوں نے دیکھی ہیں،وہ جانتے ہیں کہ مستجاب الدعوات ہونے کا شرف بھی انھیں حاصل تھا۔مولانا ندوی بھی اپنے آپ کو صوفی صاحب کی دعاؤں کا ثمر قرار دیتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں دینی و دنیوی دولتوں سے مالا مال کیا ہوا تھا۔مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے نظام سے وہ شروع روز سے وابستہ رہے اور اس کی تنظیمی وسعت کا بڑا درد رکھتے۔ مولانا عبدالقادر ندوی علیہ الرحمہ کی زبان میں مٹھاس و ملائمت کے ساتھ مزاح اور خوش طبعی بھی تھی۔بے حد سادہ مناسب لباس اور تکلف و تصنع سے کوسوں دور تھے۔علم و فضل کے بلند مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود وہ ایک کارکن اور محنت و محبت
Flag Counter