Maktaba Wahhabi

206 - 402
سے بھرے صاف ستھرے انسان تھے۔مورخِ جماعت مولانا محمد اسحاق بھٹی نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’میں نے پہلے پہل جب مولانا محمد حنیف ندوی سے ان کا تعارف کرایا اور کہا: ’’یہ ہیں مولانا عبدالقادر ندوی آف ماموں کانجن!‘‘ تو مولانا محمد حنیف فرمانے لگے: ’’یہ ندوی کم لگتے ہیں اور عبدالقادر زیادہ۔‘‘ واقعی ندویوں کا بانکپن،ان کی تہذیب و تمدن،چہرہ مہرہ اور لباس و اطوار کے کوئی آثار مولانا عبدالقادر میں نہ تھے،البتہ دار العلوم ماموں کانجن کا یہ مقام مدارسِ دینیہ میں ایک امتیاز اور علمی اعتبار سے ان کی بہت بڑی دینی و ملی خدمت ہے۔چند ماہ قبل دار العلوم کے صدر ہمارے دوست مولانا حافظ مقصود احمد مقرر کر دیے گئے ہیں۔انجمن کے اراکین کا یہ انتخاب بلاشبہہ حسنِ انتخاب ہے۔حضرت صوفی صاحب کی دعائیں اور مولانا ندوی کی شفقتیں انھیں کندن بنا گئی ہیں۔دار العلوم سے انھیں جو والہانہ عقیدت اور مخلصانہ جذبۂ خدمت ہے،یقینا ان کا وہ بہتر سے بہتر استعمال عمل میں لائیں گے۔مولانا عبدالرشید حجازی اورمولانا ریاض قدیر جیسے نوجوانوں کی رفاقت سے وہ جامعہ کی علمی حیثیت کو دن بہ دن نکھارتے چلے جائیں گے۔ان شاء اﷲ مولانا عبدالقادر ندوی چند ہفتوں سے فیصل آباد میں اپنے صالح فرزندوں اور بھتیجوں کے پاس زیادہ علالت کی وجہ سے صاحبِ فراش تھے،علاج معالجہ جاری تھا،مگر اب معلوم ہو رہا تھا کہ ع دوراہے پر ہے کارواں زندگی کا بالآخر وہ وقتِ معین پر اپنے رب کے حضور جا پہنچے۔اللھم اغفر لہ و ارحمہ۔
Flag Counter