Maktaba Wahhabi

220 - 402
لگے: ’’کیا پاؤں دھونے سے زیادہ ثواب نہیں ہو گا؟!‘‘ فیصل آباد میں رمضان المبارک کے علاوہ سال میں دو تین بار حاجی غلام محمد مرحوم اور صوفی احمد الدین مرحوم،مولانا کو تشریف لانے کی زحمت دیتے تو وہ ان بزرگوں کے اخلاص اور دینی عقیدت و محبت کو بڑی وقعت دیتے۔ایک رات ایک بزرگ حاجی غلام محمد کے ہاں اور دوسری رات صوفی صاحب مرحوم کے مکان پر گزارتے۔نمازِ فجر کے بعد مسجد عمر سول لائن میں درسِ قرآن مجید ارشاد فرماتے،جس کے بعد شرکائے محفل کو ذکر و اذکار اور رزقِ حلال کھانے کمانے کی تلقین فرماتے۔کبھی کبھار حاجی صاحب،صوفی صاحب اور ان سطور کا راقم مولانا سے ملاقات اور دعائیں لینے کے لیے اوکاڑہ حاضر ہو جاتے۔ تحریکِ پاکستان میں دونوں بھائیوں مولانا محی الدین اور مولانا معین الدین نے بھرپور حصہ لیا۔اس سلسلے میں ممدوٹ خاندان کے کسی فرد سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان علما نے نواب افتخار حسین ممدوٹ (جو تقسیمِ ملک کے بعد پنجاب کے پہلے وزیرِ اعلیٰ تھے) کے ساتھ ملک کر ضلع فیروزپور میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریکِ پاکستان کے دوران میں کس قدر جدوجہد کی۔تقسیم کے بعد ختمِ نبوت اور نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 53ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں مولانا معین الدین اوکاڑہ میں جلسوں سے خطاب کرتے اور جلوسوں کی قیادت کرتے۔آپ ان دنوں جوانِ رعنا تھے۔تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی پاداش میں اوکاڑہ اور ساہیوال کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔فیصل آباد میں اس تحریک میں راقم الحروف نے صغر سنی کے باوجود شہر کے علما مولانا تاج محمود،مولانا عبیداﷲ احرار،مولانا عبدالرحیم اشرف،مولانا
Flag Counter