Maktaba Wahhabi

221 - 402
علی محمد صمصام اور مولانا محمد صدیق رحمہم اللہ کی قیادت میں شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہوئے چند ہفتے ڈسٹرکٹ جیل میں گزارے۔ مولانا لکھوی میرے والدین کی للہیت و صالحیت اور علمائے کرام سے ان کی محبت و عقیدت سے بہت متاثر تھے۔دونوں کی وفات کی خبریں مولانا کو دیتا رہا،جس پر وہ تمام تر مصروفیات کو چھوڑ کر تشریف لاتے رہے اور دونوں کی نمازِ جنازہ انھوں نے پڑھائی۔وہ جب بھی فیصل آباد تشریف لاتے تو مولانا عبیداﷲ احرار کے،جو ان کے ضلع فیروزپور سے تعلق رکھتے تھے اور جنھوں نے مجلسِ احرار اور جمعیت اہلِ حدیث میں سرگرم ہوتے ہوئے جامعہ سلفیہ کی تعمیرات و ترقیات میں بڑا کام کیا،صاحب زادے سیف اﷲ احرار سے ملتے،اسی طرح شیخ الحدیث مولانا حافظ حکیم محمد احمد پٹوی کے صاحب زادے حکیم حافظ محمد عبداﷲ پٹوی اور ان کے صاحبزادوں سے وقت نکال کر ملاقات فرماتے اور پرانی یادوں کو موضوعِ سخن بناتے۔مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف کی قیام گاہ جناح کالونی میں ملکی حالات و سیاسیات وغیرہ مسائل پر گفتگو رہتی۔بعض اوقات ان قائدین میں مفتی زین العابدین،مولانا محمد صدیق اور میاں فضل حق بھی تشریف فرما ہوتے۔ اس حقیقت میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مولانا لکھوی علیہ الرحمۃ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔وہ علم و دانش اور حکمت کا ایسا مجسمہ تھے،جنھوں نے ہر سطح پر اور ہر جہت میں مساعیِ حسنہ کی نادر مثالیں چھوڑی ہیں،انھیں ہر جگہ اور ہر مجلس و محفل میں کمال کا ادب و احترام حاصل تھا۔اﷲ تعالیٰ بخشش و غفران سے انھیں نوازے اور فردوسِ بریں میں بلند درجات مرحمت فرمائے۔ طویل علالت کے بعد مولانا لکھوی نے 9 نومبر 2011ء کو وفات پائی۔
Flag Counter