Maktaba Wahhabi

230 - 402
حافظ صاحب علیہ الرحمہ اعلیٰ ترین خوبیوں اور بلند اوصافِ حمیدہ سے آراستہ تھے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت ان کا نصب العین تھا،وہ باجماعت نماز ادا کرنے کا سفر و حضر میں اہتمام کرنے کے دلدادہ تھے،نوافل ادا کرنا ان کا معمول تھا،ان کی زبان ذکرِ الٰہی سے ہمیشہ تر رہا کرتی تھی،جب وہ دین کی میٹھی میٹھی باتیں کرتے تو گویا منہ سے پھول جھڑتے اور ایک طرح کا اطمینانِ قلب حاصل ہوتا۔بائیس برس سے وہ اپنی باصفا اہلیہ کے ہمراہ رمضان المبارک حرمین شریفین میں گزارتے اور عید الفطر کے بعد شوال کے روزے رکھ کر واپس وطن لوٹتے۔ برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں سالہا سال سے وہاں کی مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے زیرِ اہتمام سالانہ کانفرنس منعقد ہوتی ہے،جس میں حرمین کے ائمۂ کرام اور عالمِ اسلام کے بلند پایہ علما اور راہنماؤں کو مدعو کیا جاتا ہے۔1984ء میں ہمارے مرحوم دوست مولانا محمود احمد میر پوری کی دعوت پر حافظ صاحب علیہ الرحمہ اور ان سطور کا راقم بھی کانفرنس میں شمولیت کے لیے برطانیہ گئے۔قاری عبدالحفیظ صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔قریباً ڈیڑھ ماہ تک ہمارا وہاں قیام رہا،اس دوران میں لندن،مانچسٹر،بریڈفورڈ اور ایسٹر وغیرہ کے کمیونٹی سنٹروں میں تبلیغی پروگرام رہے۔ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم بھی ہفتہ عشرہ تک ان پروگراموں میں خطاب کرتے رہے۔واپسی براستہ جدہ اور پھر حج کی سعادت کے بعد پاکستان آنا ہوا۔ اس تفصیلی سفر کے دوران میں ہم دیکھتے کہ حافظ صاحب اپنے آرام پر رفقا کے آرام اور سہولتوں کو ترجیح دیتے۔حافظ صاحب کی موثر خطابت اور وعظ و بیان میں اسلاف کی سی حکمت و دانش دیکھنے میں آتی۔وہ طویل القامت،مضبوط جسم و جان،مگر منکسر المزاج شخصیت کے مالک تھے۔انھیں پرمغز باتیں کرنے اور سلیقے و طریقے سے
Flag Counter