Maktaba Wahhabi

239 - 402
قراردادوں کو سراہا جاتا۔بعض کانفرنسوں کی قراردادوں سے تو ملکی سیاست میں ایک ہلچل پیدا ہو جاتی اور ہمارے اکابر کی سیاسی و فکری بصیرت سے استفادہ کیا جاتا۔ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کا معمول تھا کہ کانفرنس سے ایک روز قبل تشریف لے آتے اور مختلف شعبوں کا بغور جائزہ لے کر اصلاح بھی فرماتے۔چنانچہ جمعرات کے روز عصر کے بعد جب مولانا غزنوی رحمہ اللہ پنڈال میں تشریف لائے تو ان کے ہمراہ ایڈیٹر ’’الاعتصام‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی تھے۔پنڈال کمیٹی نے ان کا استقبال کیا۔میں بھی والد صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ پنڈال میں موجود تھا۔پنڈال میں سامعین کے آنے جانے کے لیے اسٹیج کے سامنے لمبا راستہ بنایا گیا تھا۔مولانا غزنوی رحمہ اللہ نے اصلاح فرماتے ہوئے کہا کہ اسٹیج کے دائیں اور بائیں دو راستے بنائے جائیں،اسٹیج کے سامنے سامعین کے بیٹھنے کی جگہ بنائی جائے۔چنانچہ کارکنان نے فوری طور پر یہ تبدیلی کر دی۔ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی تو میں قبل ازیں تین چار مرتبہ زیارت کر چکا تھا،لیکن بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو پہلی مرتبہ دیکھنے اور ملنے کا موقع ملا۔جوان رعنا،سر پر سیاہ قراقلی ٹوپی،ابو الکلامی ڈاڑھی کے ساتھ بڑی بڑی مونچھیں،سفید کرتا،پاجامے کے اوپر سیاہ واسکٹ میں ملبوس ان کی بانکی شخصیت انتہائی متاثر کن نظر آئی۔یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب آتش جوان تھی،مگر پھر برسوں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی درویشی اور عجز و انکساری کے ساتھ ساتھ سادہ طرزِ زندگی کو دیکھ کر ہمیں بڑا رشک آتا۔ کانفرنس کے آخری روز اتوار کی صبح جامعہ سلفیہ کی سنگِ بنیادکی تقریب تک ان سے ایک دو مزید ملاقاتیں ہو گئیں،جو آیندہ کے لیے میل جول کا سبب بنیں اور رفتہ رفتہ باہمی دوستی،محبت اور دینی مسلکی اخوت میں تبدیل ہوگئیں۔میرا اگرچہ
Flag Counter