Maktaba Wahhabi

243 - 402
اس قسم کی فضا کو درست کرنے اور مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی تنظیم کو فعال بنانے میں وہ ہمیشہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کے ہمراہ ہوتے،کیوں کہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کو ان کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔گویا وہ مولانا رحمہ اللہ کے مشیرِ خاص بھی تھے اور جماعتی ترجمان ’’الاعتصام‘‘ کے فاضل مدیرِ اعلیٰ بھی۔ملک کی دوسری دینی و سیاسی جماعتوں سے مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی بات چیت اور مشوروں میں بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی صائب تجاویز و آرا کو وقعت دی جاتی۔مجالسِ عاملہ و شوریٰ کی کارروائیوں کو ضبطِ تحریر میں لانا اور اخبارات و جرائد کے مدیران و نمایندگان سے رابطہ رکھنا،بس یوں سمجھئے کہ مرکزی جمعیت کے روحِ رواں بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہی ہوتے تھے۔ جب ایک مرحلہ یہ آیا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بوجوہ ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت کو خیر باد کہا تو انھوں نے سہ روزہ ’’منہاج‘‘ نکالا اور اس کی توسیع کے لیے وہ فیصل آباد بھی تشریف لائے۔دو تین روز ہمارے غریب خانے پر قیام کیا تو والد صاحب رحمہ اللہ کی محبت بھری باتوں اور مہمان نوازی و میز بانی سے وہ بہت متاثر ہوئے۔انھوں نے والد صاحب کے بارے میں اپنی کسی کتاب میں کچھ کوائف اور توصیفی کلمات بھی تحریر فرمائے ہیں،جو ان کے حکم پر میں نے انھیں ارسال کیے تھے۔ ’’الاعتصام‘‘ سے مستعفی ہونے کے بعد وہ ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ میں چلے گئے۔ادارے کے تحت ’’المعارف‘‘ ان کی زیرِ ادارت اشاعت پذیر ہوتا تھا۔بالآخر گوشۂ تنہائی انھوں نے اختیار کرلی،لیکن وہ جہاں بھی تھے،ہمارے ساتھ ان کی کشادہ ظرفی اور دوست نوازی کا سلسلہ بدستور قائم رہا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ بلاشبہہ اپنی ذات میں ایک ادارہ اور انجمن کا درجہ رکھتے تھے۔ان کا سینہ بے بہا یادوں کا خزینہ تھا۔مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی وہ ایک مجسم
Flag Counter