Maktaba Wahhabi

285 - 402
برصغیر کے عظیم خطیب سید عطاء اﷲ شاہ بخاری میدانِ خطابت کے شاہسوار تھے۔قرآن پڑھتے تو سامعین جھوم جھوم جاتے۔مرزا قادیانی کے دجل و فریب اور الہامات پر تبصرہ کرتے تو سامعین لوٹ پوٹ ہو ہو جاتے،ان کی تقریر فجر کی اذانوں پر ختم ہوا کرتی تھی۔شاہ جی کی مجلسیں بھی سخن آرائی اور خوش طبعی لیے ہوتیں۔ امین پور بازار میں مجلسِ احرار کا دفتر ہوتا تھا۔شاہ جی فیصل آباد آتے تو پہلے دفتر آتے،کھانا ہوتا اور خصوصی دوستوں و کارکنوں سے ملاقات ہوتی۔یہاں سے فارغ ہو کر انھیں دھوبی گھاٹ لے جایا جاتا،جہاں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کی خطابت کا منتظر ہوتا۔ شاہ جی ایک دفعہ دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک نوجوان نے مٹھائی کا ڈبہ پیش کیا۔شاہ جی نے فرمایا: یہ کیسی مٹھائی ہے؟ اس نے کہا کہ ایک دفعہ آپ سے بچے کی ولادت کے لیے دعا کرائی تھی،الحمد ﷲ اﷲ تعالیٰ نے پچھلے دنوں بیٹا عنایت فرمایا ہے۔شاہ جی نے کہا کہ اچھا ۔۔۔۔دعا ہے کہ وہ نیک بخت اور دراز عمری والا ہو۔اس نے کہا کہ میں نے اس کا نام بھی آپ کے نام کی نسبت سے عطاء اﷲ رکھا ہے۔شاہ جی نے فرمایا: ’’یہ نام رکھ کر تم نے اچھا نہیں کیا،وہ تو جیلوں میں رُل جائے گا،اس کا نام تم احتشام الحق رکھو،تاکہ وہ عیش کرے۔‘‘ مولانا احتشام الحق تھانوی اس زمانے میں سرکاری مولوی تھے،جو مختلف کونسلوں اور مذہبی کمیٹیوں کے سربراہ تھے۔شاہ جی کے اس شگفتہ اور برملا فقرے سے محفل باغ و بہار ہو گئی۔ شاہ جی ایک دفعہ جھنگ میں تقریر کر رہے تھے کہ ایک رقعہ آیا کہ مائی ہیر کے متعلق فرمائیں کہ وہ کیسی عورت تھی؟ اس کے مزار پر زائرین کی ایک بھیڑ لگی رہتی
Flag Counter