Maktaba Wahhabi

288 - 402
ہندوؤں کے سیکڑوں بھگوان اور اوتار ہیں،مگر ہمارا صرف ایک خدا ہے،وہ جس گائے کو بھگوان کا درجہ دیتے ہیں،ہم اسے شوق سے ذبح کر کے کھا جاتے ہیں۔‘‘ بالآخر وہ وقت بھی آیا کہ 23 مارچ 1940ء کو مینارِ پاکستان لاہور میں مسلم لیگ کے عظیم الشان جلسے میں قراردادِ پاکستان پیش کر دی گئی،قائد اعظم کی صدارت میں منعقدہ اس جلسۂ عام میں اسٹیج پر زعمائے قوم میں جماعت اہلِ حدیث کے جلیل القدر علما حضرت حافظ محمد گوندلوی،حضرت محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی تشریف فرما تھے۔بنگال سے آئے ہوئے مسلم لیگی لیڈر اے کے فضل الحق جنھوں نے قرار داد پیش کی،مسلکِ اہلِ حدیث کے حامل تھے (پاکستان بننے کے بعد وہ مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ بھی رہے)۔تائیدی تقریروں کے بعد یہ قرارداد پاس ہوئی،جسے ’’قراردادِ لاہور‘‘ کا نام دیا گیا،لیکن ہندو پریس اور کانگریسی علما نے اسے ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کا نام دے دیا۔مولانا ثناء اﷲ علالت کے سبب جلسے میں شرکت نہ کر سکے،انھوں نے اپنے اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘ میں قرارداد کی بھرپور تائید کی۔ تحریکِ پاکستان کے مخالفین کا استدلال یہ تھا کہ مسلمان کوئی الگ قوم نہیں ہیں۔مولانا ابو الکلام آزاد،مولانا حسین احمد مدنی اور جمعیت علمائے ہند کے دیگر زعما نے اسی موقف پر انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا،جب کہ علامہ اقبال مولانا سید محمد داود غزنوی اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کی نہ صرف حمایت کی،بلکہ جمعیت علمائے ہند کے اس تصورِ قومیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں مسترد کیا۔ مولانا سیالکوٹی نے کانگریسی علما کے سامنے پانچ سوالات رکھے اور کہا کہ ان کا
Flag Counter