Maktaba Wahhabi

291 - 402
کی ہے،اس کے بے شمار اقتباسات موجود ہیں،انھوں نے اپنی تقریروں میں برملا کہا کہ ہمارا قانون،ہمارا نظام،بلکہ ہماری ہر شے اسلام کے مطابق ہو گی۔قیامِ پاکستان سے ایک سال قبل 6 مارچ 1946ء کو فرمایا: ’’ہمیں قرآن پاک،حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہو گا،جس میں ہمارے لیے مکمل راہنمائی ہے۔‘‘ 14 اگست 1947ء کو قیامِ پاکستان کے بعد 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابلِ عمل ہیں،جس طرح 1300 سال پہلے تھے۔وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدون نہیں ہو گا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949 کو قراردادِ مقاصد پاس کی،اس قرارداد کے مسودے کو تیار کرنے میں مشرقی پاکستان سے اہلِ حدیث ممبر اسمبلی مولانا اکرم خان ایڈیٹر روزنامہ ’’اتفاق‘‘ کا نمایاں کردار تھا۔ 1951ء کے آغاز میں،جب کہ نوزائیدہ مملکتِ پاکستان میں قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی کے لیے علمائے کرام حکومت کو توجہ دلا رہے تھے تو مسلم لیگ کے صدر چوہدری خلیق الزمان نے یہ بڑھ ہانکی کہ ہم کس فرقے کا اسلام نافذ کریں ؟ اس بیان کو دینی طبقے کے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہوئے مولانا سید محمد داود غزنوی میدانِ عمل میں آئے اور تمام مکاتبِ فکر کے ممتاز علما سے رابطہ قائم کیا،جس کے بعد 9 فروری 1949ء کو 31 علما کے نمایندہ اجلاس منعقدہ کراچی میں 22 نکات پر مشتمل متفقہ
Flag Counter