Maktaba Wahhabi

323 - 402
ثناء اﷲ امرتسری اور مولانا معین الدین لکھوی رحمہم اللہ جیسے ہمارے اسلاف نے اسی عظیم نصب العین کی خاطر روزِ اول سے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ قیامِ پاکستان کے مخالفین کانگریسی زعما مولانا ابو الکلام آزاد،مولانا مودودی،مولانا حسین مدنی،مولانا اسماعیل سلفی اور مولانا عطاء اﷲ حنیف رحمہم اللہ کا یہ موقف تھا کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے مسلمانوں کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی فرقہ ورانہ مصائب کا یہ حل ہے،بلکہ عین ممکن ہے کہ فرقہ واریت میں اور زیادہ اضافہ ہو جائے اور تلخیاں مزید بڑھ جائیں۔مسلمانوں کی دینی و اخلاقی اور اقتصادی حالت بہتر نہیں ہو سکے گی،بلکہ بااثر مسلمان خود ہی مسلمانوں کا استحصال کریں گے،ان کی غریبی بھی کم نہ ہو گی اور نہ ہی انھیں تعلیم و صحت کے ساتھ مساوی مواقع میسر آئیں گے،وہ یہ بھی خطرہ محسوس کرتے تھے کہ پاکستان کہیں جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ پسماندہ ملک نہ بن جائے۔ تحریکِ پاکستان کے زمانے میں فریقین،یعنی مسلم لیگی اور کانگریسی قائدین اپنے اپنے اجلاس اور تحریروں میں اپنا موقف زور دار طریقے سے واضح کر رہے تھے۔جب علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں پاکستان کا تصور پیش کیا تو کچھ عرصے بعد لاہور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراؤنڈ میں انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے کی ایک دوپہر کی نشست میں علامہ اقبال نے پاکستان کے حصول کی غرض و غایت بیان کی تو رات کی نشست میں مولانا ابو الکلام آزاد پاکستان کے قیام کے خلاف خطابت کے جوہر دکھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک سٹوڈنٹ نے مولانا کی خدمت میں ایک رقعہ بھیجا کہ صبح کے اجلاس میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے پاکستان کے حق میں یہ دلائل پیش کیے تھے،اس پر برجستہ مولانا آزاد نے جواب دیا:
Flag Counter