Maktaba Wahhabi

38 - 402
حضرت حافظ صاحب کی مسحور کن خطابت ایک امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔صاف ستھرے،دھوتی کرتے اور کلاہ پر مشہدی پگڑی کے ساتھ ان کے سلفی انداز اور دلنواز خطابت کی سماعت کے لیے ہر خاص و عام منتظر دیکھا جاتا۔بلاشبہہ دعوت و تبلیغِ دین کا ان کا موثر طرزِ تکلم اپنی مثال آپ تھا۔ تقریر کے دوران میں اپنی مخصوص مترنم آواز میں جب وہ قرآنِ عزیز کی آیات تلاوت کرتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔شیخ سعدی کے فارسی،اقبال و حالی کے اردو اور حافظ محمد لکھوی کے پنجابی اشعار سے مزین ان کی تقریر کی تاثیر مزید بڑھ جاتی۔ان سطور کے راقم کو کراچی و حیدر آباد اور پشاور و کوئٹہ میں بھی انھیں سننے کے مواقع ملے۔پنجاب کے شہر و قصبات اور دیہاتی ماحول میں بھی ان کی تقریریں سنیں،ان علاقوں کی زبانوں،لہجوں اور کلام و بیان پر حافظ صاحب کو عبور حاصل تھا۔سلیس اردو اور ٹھیٹھ پنجابی محاورات میں ان کے وعظ بہار دکھاتے اور لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوتی دکھائی دیتی۔ یہ کوئی 1952ء کی بات ہو گی کہ حضرت حافظ صاحب نے منٹگمری بازار میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔میرے والد صاحب کی ترغیب سے صوفی احمد دین،حاجی بشیر احمد اور کچھ نوجوان،جو اس زمانے میں گول بازار کریانہ میں دکانیں کرتے تھے اور ہماری دکان بھی وہیں تھی،شرک و بدعات کو چھوڑ کر قرآن و سنت کی شافی تعلیمات کی طرف مائل تھے،لیکن ان کے عقائد میں پختگی حضرت حافظ صاحب کی تقاریر اور مشفقانہ مجلسوں میں بیٹھنے سے آئی۔ صوفی صاحب اپنے ایک جگری دوست حاجی نذیر احمد صاحب کو،جن کی چوک گھنٹہ گھر منٹگمری بازار کی نکڑ پر دکان تھی اور بریلوی عقیدہ رکھتے تھے،حافظ صاحب کا
Flag Counter