Maktaba Wahhabi

57 - 402
گئے،اسی سلسلۂ مجاہدین میں چلتے چلتے مولانا ابوالکلام آزاد تک نوبت پہنچ جاتی ہے،جن کی تقریریں آج بھی ہمارے قلوب کو جذبہ جہاد سے منور کرتی ہیں۔ مولانا غزنوی کے خطاب کے بعد آغا شورش کاشمیری مائیک پر آئے،حاضرین کا ایک جمِ غفیر حدِ نگاہ تک دیکھا جا رہا تھا۔آغا صاحب نے اپنے دلآویز اور مخصوص شعلہ نوا اندازِ بیان اور شعر و غزل سے معمور خطاب میں مجاہدینِ آزادی کو خراجِ تحسین پیش کیا،انھوں نے مولانا آزاد کے جنازے کا منظر اور اندوہ گین و پرسوز ہندوستانی مسلمانوں کے تاثرات ذکر کیے۔آغا صاحب دہلی میں مولانا کی نمازِ جنازہ میں شمولیت کے لیے بھی گئے تھے۔آغا صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں مولانا غزنوی کی خدمات اور جراَت و بے باکی کا نہایت احسن طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا نے جادۂ حق پر چلتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔پھر تحریکِ آزادی،تحریکِ خلافت اور تحریکِ پاکستان میں ان کی جد و جہد کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان تمام کٹھن راہوں میں سید غزنوی ہمیشہ پیش پیش رہے اور مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ مولانا علیہ الرحمۃ گاہے بہ گاہے جامعہ سلفیہ تشریف لاتے رہتے۔کبھی ان کے ہمراہ مولانا محمد اسماعیل ناظمِ اعلیٰ اور ناظمِ تعلیمات مولانا محی الدین احمد قصوری ہوتے،بعض اوقات ناظمِ طبع و تالیف مولانا عطاء اﷲ حنیف دیکھے جاتے،وہ طلبا و اساتذہ کو خطاب فرماتے۔وہ غزنوی بزرگوں خاص طور پر اپنے والدِ گرامی قدر حضرت الامام سید عبدالجبار غزنوی اور چچا مولانا سید عبدالواحد غزنوی کی سیرت و سوانح،زہد و ورع اور تقویٰ و للہیت بیان کرتے ہوئے اس دور کے ان کے شاگردوں اور حلقہ درس کے طلبا پر اپنے ان بلند مرتبت اساتذہ کے اثرات کے واقعات سناتے۔جماعتی اجلاس اور تنظیمی پروگراموں میں مولانا غزنوی کے قائدانہ خیالات بارہا سننے کے مواقع میسر
Flag Counter