Maktaba Wahhabi

56 - 402
اثرات مرتب ہو رہے تھے۔بس وہ علامہ اقبال کے اس شعر کے پورے پورے مصداق نظر آ رہے تھے ع نگاہِ بلند،سخن دلنواز،جاں پرسوز یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے کانفرنس کے دنوں میں ایک صبح جامعہ سلفیہ کی بنیاد رکھنے کی تقریب بھی دیدنی تھی۔مولانا غزنوی کے ساتھ اس دور کے بہت سے اکابر علما و صلحا تشریف رکھتے تھے۔اس تاریخی لمحے پر مولانا غزنوی کی رقت آمیز گفتگو اور خشوع و خضوع میں ڈوبی ہوئی دعائیں تاحال دل و دماغ کی دنیا میں گردش کر رہی ہیں۔ 1956ء میں جب مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان میں انتقال کر گئے تو احرار راہنما مولانا تاج محمود نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ آپ شبان اہلِ حدیث کے نوجوان کارکنان مولانا غزنوی کو بلائیں اور میں آغا شورش کو لاتا ہوں،ہم مولانا آزاد پر تعزیتی جلسے کا انعقاد کریں۔چنانچہ دھوبی گھاٹ کے وسیع میدان میں ایک عظیم الشان تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا،جس کی صدارت صدرِ انجمن اہلِ حدیث فیصل آباد حکیم نور دین کے صاحب زادے میر عبدالقیوم (ایم۔پی۔اے و سیکرٹری جنرل پاکستان ریپبلک پارٹی) نے کی۔ ابتدائی خطاب مولانا غزنوی نے فرمایا،انھوں نے جنگِ آزادی 1857 کے مجاہدین کی تگ و تاز اور ظلم و تشدد پر مبنی قربانیوں کا تذکرہ بڑے خوب صورت اور دلنشین انداز مگر سوز و گداز سے کیا اور فرمایا کہ یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے انگریزوں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لیے تلوار اٹھائی،اسلامی حکومت کے قیام کے لیے آرام و آرایش کو چھوڑ کر دار و رسن کو برداشت کیا،کالا پانی کی سزائیں پائیں اور کئی تختہ دار پر جھول
Flag Counter