Maktaba Wahhabi

46 - 315
علامہ مرحوم نے مذکورہ حدیث کاانکار نہیں کیا ہے۔ تاہم اگر ہم فرض کرلیں کہ انھوں نے اس حدیث کا انکار کیا ہے تو کیا اس انکار کی وجہ سے ان کے وہ عظیم الشان کارنامے کالعدم قراردئیے جائیں گے جن کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین میں بے شمار ایسے بزرگ علمائے حدیث ہیں جنھوں نے ایک یا ایک سے زائد حدیث کاانکار کیا ہے کیونکہ یہ احادیث ان کےنزدیک کسی نہ کسی معقول سبب کی بنا پر معتبر نہیں ہیں لیکن اس انکار کے باوجود ان کی شان اور منزلت میں ذرہ برابرفرق نہیں آیا۔ خودحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بعض احادیث کا انکار کیا ہے کیونکہ یہ احادیث ان کی اپنی سمجھ کے مطابق قرآن سے ٹکرارہی ہیں۔ پھر یہ سمجھنا بھی درست نہیں ہے کہ جس نے بخاری یامسلم کی ایک یا دو احادیث کاانکار کردیا گویا اس نے کل کی کل بخاری یا مسلم ہی کاانکار کردیا ہے۔ علامہ مرحوم نے جادو والی حدیث کاانکار نہیں کیا ہے بلکہ اپنی سمجھ کے مطابق اس کی توضیح وتشریح کی ہے۔ حالانکہ سلف صالحین میں سے بعض علمائے حدیث نے اس حدیث کاانکار بھی کیا ہے۔ مثلاً اما ابوبکر الرازی جو ایک زبردست حنفی عالم دین تھے انھوں نے اس حدیث کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ علامہ مرحوم نے اس حدیث کی جو تشریح کی ہے اسے بیان کرنے سے قبل مناسب ہوگا کہ میں اس حدیث کو پیش کردوں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ بنو زریق قبیلہ کے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا۔ اس آدمی کا نام لبید بن الاعصم تھا۔ اس جادو کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسامحسوس ہوتا تھا کہ آپ نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہیں کیاہوتا۔ ایک دن آپ میرے پاس موجود تھے پھر بھی بار بار آپ نے مجھے آواز دی۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیاتمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ سے جس چیز کے بارے میں دریافت کیاتھا اللہ نے مجھے اس کے بارے میں باخبر کر
Flag Counter