Maktaba Wahhabi

159 - 227
وَرَوَيَ ابْنُ نَافِعٍ عَنْ مَالِکٍ:’’ أَنَّہُ لَا یُتْرَکُ لَہُ إِلَّا مَا یُوَارِیْہِ۔ ‘‘ وَلَا یُتْرَکُ لَہُ مَسْکَنٌ، وَلَا خَاتَمٌ، وَلَا ثَوْبُ جُمْعَتِہِ مَا لَمْ تَقِلّ قِیْمَتُھَا۔[1] ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد:[جو تم پاؤ، لے لو]اس بات پر دلالت کرتا ہے، کہ اس کے ہاں موجود ہر چیز لے لی جائے گی، البتہ اس کی ضرورت کی چیزیں چھوڑی جائیں گی۔ ابن نافع نے مالک سے روایت نقل کی گئی ہے:’’ بدن کو چھپانے والے کپڑوں کے سوا کوئی چیز اس کے لیے چھوڑی نہ جائے گی۔ ‘‘ اس کی رہائش گاہ، انگوٹھی حتی کہ جمعہ کا لباس بھی اس کے لیے چھوڑا نہ جائے گا، البتہ اگر اس کی قیمت معمولی ہو، تو اس کے پاس رہنے دیا جائے گا۔ ‘‘ اور اس کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وَلَیْسَ لَکُمْ إِلَّا ذٰلِکَ۔ ‘‘ … ’’ اور تمہارے لیے اس کے سوا کچھ نہیں۔ ‘‘ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیصلہ میں توازن برقرار رکھا۔ ایک طرف قرض خواہوں کو مقروض کی بساط سے باہر کسی چیز کے تقاضا سے روک دیا، تو دوسری طرف قرض دار کو اس بات کا پابند کیا ہے، کہ جو کچھ بھی اس کے ہاں موجود ہے، اپنے قرض خواہوں کے حوالہ کردے۔ حدیث کی شرح میں علامہ نووی نے تحریر کیا ہے: ’’ فِیْہِ التَّعَاوُنُ عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی، وَمُوَاسَاۃُ الْمُحْتَاجِ، وَمَنْ عَلَیْہِ الدَّیْنُ، وَالْحَثُّ عَلَی الصَّدَقَۃِ عَلَیْہِ۔ ‘‘[2] ’’ اس[حدیث]میں نیکی اور تقویٰ[کے کاموں]میں تعاون، نادار اور[خصوصی طور پر]مقروض کے ساتھ ہمدردی اور اس پر صدقہ کرنے کی
Flag Counter