Maktaba Wahhabi

187 - 227
’’ وَکَانَ لِيْ عَلَیْہِ دَیْنٌ، فَقَضَانِيْ وَزَادَنِيْ۔ ‘‘ ’’ اور میرا آپ پر قرض تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ادا کیا[بلکہ]اور زیادہ(بھی)دیا۔ ‘‘ امام بخاری نے دونوں حدیثوں پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ حُسْنِ الْقَضَائِ][1] [اچھی طرح ادا کرنے کے متعلق باب] امام بغوی پہلی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلَی أَنَّ مَنِ اسْتَقْرَضَ شَیْئًا، فَرَدَّہُ أَحْسَنَ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ غَیْرِ شَرْطٍ، کَانَ مُحْسِنًا، وَیَحِلُّ ذٰلِکَ لِلْمُقْرِض۔ فَأَمَّا إِذَا شَرَطَ فِيْ الْقَرْضِ أَنْ یَرُدَّ أَکْثَرَ أَوْ أَفْضَلَ فَھُوَ حَرَامٌ۔ [2] اس میں[اس بات کی]دلیل ہے، کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو بطور قرض لے اور شرط کے بغیر اس سے زیادہ اچھی چیز یا(وہی چیز)زیادہ مقدار میں واپس کرے، تو وہ احسان کرنے والا[سمجھا جائے]ہوگا، اور قرض خواہ کے لیے اس کا لینا جائز ہوگا۔ اور اگر قرض میں یہ شرط ہو، کہ اس سے زیادہ مقدار میں، یا اس سے افضل چیز کو واپس کرنا ہوگا، تو وہ حرام ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مذکورہ بالا فتویٰ سے بھی اسی بات کی تایید ہوتی ہے۔
Flag Counter