Maktaba Wahhabi

46 - 227
ثُمَّ یَعْجِزُ عَنْ أَدَائِہِ، وَیَحْتَمِلُ أَنْ یُرَادُ بِہِ مَا ھُوَ أَعَمُّ مِنْ ذٰلِکَ۔ ‘‘[1] [کہا گیا ہے:اس سے مراد ناجائز کاموں کے لیے لیا ہوا قرض ہے، اور جائز کاموں کی خاطر لیا ہوا ایسا قرض ہے، کہ اس کی واپسی اس کی بساط سے باہر ہو، اور یہ[بھی]احتمال ہے، کہ اس سے مراد کوئی اور زیادہ عام معنی ہو۔ ‘‘] ۲: حافظ ابن حجر ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ’’ ثُمَّ رَأَیْتُ فِيْ حَاشِیَۃِ ابْنِ الْمنیِّر:’’ لَا تَنَاقُضَ بَیْنَ الْاِسْتِعَاذَۃِ مِنَ الدَّیْنِ وَجَوَازِ الْاِسْتِدَانَۃِ، لِأَن الَّذِيْ اسْتُعِیْذَ مِنْہُ غَوَائِلُ الدَّیْنِ۔ فَمَنْ ادَّانَ وَسَلِمَ مِنْھَا، فَقَدْ أَعَاذَہُ اللّٰہُ وَفَعَلَ جَائِزًا۔ ‘‘ [2] [پھر میں نے حاشیہ ابن منیر میں دیکھا:’’ قرض سے پناہ مانگنے اور قرض لینے کے جواز میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ جس چیز سے پناہ طلب کی گئی ہے، وہ قرض کی مصیبتیں ہیں اور جو شخص قرض لے اور ان سے محفوظ رہے، تو اس کو اللہ تعالیٰ نے پناہ عطا فرمادی اور اس نے جائز کام کیا۔ ‘‘] ۳: علامہ عینی رقم طراز ہیں: اَلْمَغْرَمُ الَّذِيْ اسْتَعَاذَ مِنْہُ إِمَّا أَنْ یَکُوْنَ فِيْ مُبَاحٍ، وَلٰکِنْ لَا وَجْہَ عِنْدَہُ لِقَضَائِہِ، فَھُوَ مُتَعَرِّضٌ لِھَلَاکِ مَالِ أخِیْہِ، أَوْ یَسْتَدِیْنُ، وَلَہُ إِلَی القَضَائِ سَبِیْلٌ، غَیْرَ أَنَّہُ یَرَی تَرْکَ الْقَضَائِ،
Flag Counter