Maktaba Wahhabi

128 - 277
اول: اس کی فصاحت ۔ دوم: اس کا غیب کی خبروں کو شامل ہونا۔ سوم: اختلاف سے سلامتی ؛ یہی چیز اس آیت میں یہاں پر بیان کی جارہی ہے۔ پھر اس تیسرے قول یعنی ’’ اختلاف سے سلامتی‘‘ کی تفسیر میں تین اقوال ہیں: اول: ابوبکر الاصم کہتے ہیں: اس کا معنی یہ ہے کہ : بیشک یہ منافقین خفیہ طور پر اپنی مکاریوں اور حیلہ بازیوں میں کئی اقسام پر ہیں۔اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گاہے بگاہے ان کے احوال سے خبر دار کیا کرتے تھے۔ اور ان کی بابت تفصیل سے بھی بتایا جاتا۔ جس میں صداقت کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ تو ان سے یہ کہا گیا ہے کہ : اگر ان چیزوں کی اطلاع اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ دی گئی ہوتی تو اس میں صداقت کو یوں ثابت قدمی نہ ملتی۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں مختلف قسم کے اختلافات اور فرق پایا جاتا۔ جب اس میں کوئی ایسا اختلاف نہیں پایا جاتا؛ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ دوسرا قول: جس اکثر متکلمین نے اختیار کیا ہے؛ وہ کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ یہ قرآن کریم ایک بہت بڑی کتاب ہے؛ اور اس میں مختلف قسم کے علوم پائے جاتے ہیں؛ اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اورکی طرف سے ہوتا تو اس کے کلمات میں بہت سارا اختلاف اور تناقض پایا جاتا؛کیونکہ بڑی کتابیں ایسی چیزوں سے خالی نہیں ہوتیں۔ جب کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی ؛ تو اس کے من جانب اللہ ہونے کی دلیل ہے۔ تیسرا قول: یہ قول کہ :’’قرآن اختلاف سے پاک ہے‘‘اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ابو مسلم الاصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی فصاحت کے رتبہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ حتی کہ اس میں کوئی جملہ بھی ایسا نہیں پایا جاتا جس میں کوئی رکیک کلام ہو؛ بلکہ شروع سے آخر تک سارا فصیح کلام ایک ہی منہج پر مشتمل ہے۔یہ بات معلوم شدہ ہے کہ
Flag Counter