Maktaba Wahhabi

130 - 277
کہا جاتا ہے: تدبر الامر۔ جیسا کہ اس آیت میں ہے : { یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ } ’’وہ قرآن میں غورو فکر کرتے ہیں۔‘‘تو اس کا معنی یہ ہے کہ اس کی دلالت میں غورو فکر کرتے ہیں؛اس میں دو معانی کا احتمال ہے: اول: یہ کہ ان آیات کی تفاصیل پر غور کریں کہ جن مقاصد کی طرف مسلمانوں کو ان آیات میں رہنمائی دی جارہی ہے۔ یعنی اس کی تفصیل میں غوروفکر کرنا۔ دوم : یہ کہ جملہ قرآن کی فصاحت و بلاغت پر غور وفکر کریں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔ اور یہ کہ اس قرآن کو لانے والی ہستی صادق ہستی ہے۔ یہاں پر ان آیات کا سیاق پہلے معانی کو ترجیح دیتا ہے۔ یعنی کہ اگروہ قرآنی ہدایات پر غورو فکر کرتے تو انہیں بہت بڑی خیر و بھلائی حاصل ہوتی ۔ اورفرمان الٰہی : { وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ }’’ اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا…۔‘‘یہ جملہ استفہامیہ ہے۔ انہیں اس کی تفاصیل میں غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور انہیں ایسے امور بتائے گئے ہیں جو اس قرآن کے من جانب اللہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ یہی تو اس میں اختلاف کی نفی اور انکارہے۔ پس اس اعتبار سے تدبر کایہ حکم عام ہے۔ اور یہاں پر تدبرکی جزئیات میں سے ایک جزئی کا بیان کیا گیا ہے۔ جس میں ان کی ہمتوں کو بیدار ہونے کے لیے ایک مناسب فرصت مہیا کی گئی ہے۔تاکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلائل ان کو گھیر لیں۔ تو یہ سابقہ پیش کردہ کلام پر ایک زائد چیز ہوگی۔ اوریہ ان لوگوں کے اعتبار سے بہت اہم جو کہ شک و شبہ کا شکار ہیں۔‘‘ یہ صاف ظاہر ہے کہ یہاں پر اختلاف سے مراد قرآنی آیات کا باہمی اختلاف ہے۔ جسے اضطراب بھی کہتے ہیں۔ اور اس کا بھی احتمال ہے کہ ان کے احوال کے ساتھ اختلاف ہو۔ تو اس صورت میں مراد یہ ہوگی کہ :’’ پھر قرآنی تصریحات اور ان کے احوال کے مابین اختلاف پایا جاتا [جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں]۔تو ان کے علم کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔کیونکہ اس میں ان کے دل کے احوال کی خبر ایسے دی گئی ہے جو کہ
Flag Counter