Maktaba Wahhabi

166 - 277
نطفہ جس سے جنین کی تخلیق عمل میں آتی ہے؛ اسے سلالہ کہا گیاہے؛ جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ہے۔ اس لیے کہ یہ مرد سے منفصل ہونے والا مادہ ہے۔ اور فرمان الٰہی : {مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْن } [السجدۃ 8] ’’…ایک حقیر پانی سے بنائی۔‘‘یہ جملہ سلالہ کا بیان ہے۔ یہاں پر حرف’’من ‘‘ بیان کے لیے آیاہے۔ پس سلالہ ہی وہ حقیر پانی ہے جو لوگوں میں معروف اور متعارف ہے ‘‘ لیکن اس آیت کریمہ میں ایک سائنسی اشارہ ہے جس کا ادراک لوگوں کو آج اس زمانہ میں ہوا ہے۔ وہ یہ کہ : جنین کی تکوین و تخلیق کا عمل نطفہ پر موقوف ہوتا ہے۔اور یہ ایسے ذرات سے تشکیل پاتا ہے جو عورت کے سلالہ سے مل جاتا ہے ۔جو اس سے زائد ہو؛ وہ فاضل مادے کی نذر ہوجاتا ہے۔ پس سلالہ اس پانی کو کہتے ہیں جو حقیر پانی سے کشید ہوکر جوہر کی صورت میں نکلتا ہے نہ کہ سارا حقیر پانی۔ یہاں پر {مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْن } میں {مِّنْ }یاتو ابتداء کے لیے ہے یا پھر تبعیض کے لیے۔‘‘ [التحریر والتنویر1؍3298] آج کے ماہرین سائنس اس نکتہ تک پہنچے ہیں کہ انسان کی تخلیق مادہ منویہ کے ایک حیوان سے عمل میں آتی ہے۔ اوریہ ایک حیوان انسان سے خارج ہونے والے کئی ملین حیوانات کے مادہ کا ایک جزء ہوتا ہے۔ یہاں پر لفظ {سُلٰلَۃٍ } میں انتہائی باریکی اور لطافت پائی جاتی ہے۔اوراس عمل کو یوں بیان کیا جاسکتاہے کہ وہ حیوان ان ملیون حیوانات میں سے ایک ہوتا ہے جو کشید ہو کر عورت کے رحم میں جاکر اس کے بیضہ سے مل جاتا ہے۔‘‘ اس سے بغیر کسی شک و شبہ کے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں؛ بلکہ یہ بشریت کے خالق کا کلام ہے؛ کیونکہ اس حقیقت تک بشریت کی رسائی تو صرف اس زمانہء حاضر میں ہوئی ہے جب سائنسی علوم نے خوب ترقی کرلی ۔
Flag Counter