Maktaba Wahhabi

177 - 277
یہاں پر پوروں کا ذکر بطور خاص اس لیے کیا گیا ہے کہ تخلیق کے وقت سب سے آخر میں پورے ہی بنتے ہیں۔ گویایوں فرمایا جارہا ہے کہ: ہم اس بات پر قادر ہیں کہ تمام جوڑوں کے چھوٹے ترین اور انتہائی باریک و لطیف ہونے کے باوجودبغیر کسی کمی یا فرق کے ؛ ان کو ایسے آپس میں ملا دیں گے جیسے وہ پہلے تھے۔تو پھر بڑی ہڈیوں کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے۔‘‘ [التفسیر الکبیر 30؍218] امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: { عَلٰی اَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَہٗ} [القیامۃ 4] ’’اس کے پورے درست بنا دیں۔ ‘‘ یعنی ہم ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر جمع کردیں۔ اور ان کے انتہائی لطیف اور چھوٹے ہونے کے باوجود ان کو دوبارہ ایسے ہی کردیں جیسے وہ پہلے تھے۔ تو پھر بڑے اعضاء کا معاملہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ یہاں پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے باقی تمام اعضاء بدن کو چھوڑ کر بالخصوص پوروں پر تنبیہ کی ہے۔اس سے مراد انگلیوں کے پورے ہیں۔ یہ کہ انگلیوں اور پوروں کی دوبارہ برابر کرنے پر قدرت حاصل ہوناویسے ہی ہے جیسے پہلی بار انہیں بنانے؛ اورلطیف و باریک خلقت اور ناخن اور جوڑوں؛ باریک رگوں اور دقیق ہڈیوں پر مشتمل ہونے کے باوجود انہیں برابرکرنے پرحاصل قدرت سے کم نہیں؛یہی وجہ ہے کہ پوروں کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔یہ قول زجاج اور ابن قتیبہ کا ہے۔ [فتح القدیر5؍471] علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یہاں پر تسویہ سے مراد پوروں کو دوبارہ اپنی اصلی اور پختہ حالت میں بناناہے۔یعنی تسویہ دوبارہ پیداکرنے[بنانے] سے کنایہ ہے۔ اس لیے کہ بلا شک و شبہ جس چیز کو اصل حالت میں برابر کردیا جائے تو یقیناً اس کی دوبارہ تخلیق عمل میں آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی} [الأعلی 2] ’’وہ جس نے پیدا کیا اوربرابر کردیا۔‘‘
Flag Counter