Maktaba Wahhabi

183 - 277
یہ چیزیں قرآن کا موضوع ہیں۔ جہاں تک دوسرے اور تیسرے سوال کا تعلق ہے؛ یعنی : ٭… کائنات کو کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ ٭… ان کی تخلیق کیسے مکمل ہوئی۔ یہاں پر اس بحث سے مقصود یہی دو سوال ہیں۔‘‘ قرآن کریم نے ان سوالات کی طرف کئی آیات میں اشارہ کیا ہے۔فرمان الٰہی ہے: {ثُمَّ اسْتَوَی اِِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَ } [فصلت 11] ’’پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤخواہ خوشی سے یا نا خوشی سے ۔بولے: ہم خوشی سے آتے ہیں۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں اس مادہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس سے آسمان اور جو کچھ اس میں ہے جیسے نجوم؛ کواکب وغیرہ کو پیدا کیا گیا۔کہ یہ مادہ ایک دھواں تھا۔ اس تخلیقی مادہ کے متعلق یہ قرآنی حقیقت ہے۔ اس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال وتفاسیر ہیں۔ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد پانی سے اٹھنے والے بخارات ہیں۔کیونکہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے بھی پانی موجود تھا۔ جیسا کہ اللہ عزوجل نے قرآن میں اس کا ذکر کیا ہے۔اور کچھ نے اس سے مراد اندھیرا لیا ہے۔اور بعض نے اس سے حقیقی دھواں مراد لیاہے۔ آیت میں وارد لفظ کا لغت میں بھی یہی معنی ہے؛ بھلے انسانی علوم اس کی موافقت کریں یا مخالفت ۔ ظاہری دلائل والفاظ سے ہٹ کر ایسے مخفی معنی کی طرف جانا جائز نہیں جس کے خلاف ثابت ہوچکا ہو۔ اس نص کی تفسیر اس کے ظاہری الفاظ کے مطابق مفسرین کی ایک جماعت سے وارد ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک امام طبری رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
Flag Counter