Maktaba Wahhabi

186 - 277
تعالیٰ نے ان کو ایک دوسرے سے جدا کیا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ } [الانبیاء0 3] ’’اور کیاکافروں نے نہیں دیکھا کہ بیشک سارے آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے ہم نے انھیں جدا کیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی، تو کیا یہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آسمان اور جو کچھ اس میں ہے سب زمین کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو علیحدہ کردیا۔ امام طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ زمین و آسمان کے جڑے ہوئے ہونے سے کیا مراد ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے اقوال میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ جوڑ کیسا تھا ؟ اور ان کو جدا کرنے کا کیا معنی ہے؟ تو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ زمین و آسمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے[جڑے] ہوئے تھے؛ پھر اللہ تعالیٰ نے ہوا کے ذریعہ ان کو علیحدہ علیحدہ کردیا۔ پھر آپ نے اپنی سند سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر نقل کی ہے۔ {اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا} ’’اور کیاکافروں نے نہیں دیکھا کہ بیشک سارے آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے ‘‘ یعنی آپس میں ملے ہوئے ایک دوسرے میں ضم شدہ تھے۔‘‘ [تفسیر الطبری 9؍19] علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ اس بات کا احتمال ہے کہ جڑے ہونے سے مراد ان تمام موجودات کا آپس میں اتحاد اور یگانگت ہو؛ جب یہ ساری چیزیں ایک ہی مادہ تھیں؛ یا ایک خمیر تھیں یا
Flag Counter