Maktaba Wahhabi

201 - 277
لیکن اس سیال طبقہ کے دباؤ کے نیچے ایک گوندھا ہوا قوام مادہ ہے۔ اس گوندھی ہوئی شکل کے مادہ پر براعظم آسانی سے پھسل جاتے ہیں۔جیسا کہ اب انکشاف ہوا ہے کہ براعظم امریکا مسلسل مشرق کی طرف اتنی سرعت سے پھسل رہا ہے کہ اسے سائنسی پیمانوں پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔یہی حال باقی تمام براعظموں کا ہے۔ یہ سارے آپس میں ملے ہوئے تھے؛ پھر ان میں جدائی ہونے کے بعد ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔ براعظموں کے مابین اس مجہول الاسباب دوری کے لیے ایک رکاوٹ پہاڑ ہیں۔ یہ پہاڑ جن کی چوٹیاں تو فضاؤں میں بلند ہیں مگر ان کی جڑیں زمین کے اندر انتہائی گہری ہیں۔ خیال یہ ہے کہ پہاڑ جتنے زمین کے اوپر ظاہر ہیں؛ اس سے چار گنا زیادہ لمبائی میں زمین کے اندر گہرائی میں ہیں۔ پہاڑوں کی یہ گہری جڑیں براعظموں کو تیزی سے پھسلنے سے روکتی ہیں۔براعظم امریکہ اس وقت سالانہ تقریباً ایک میٹر کی رفتار سے مشرق کی طرف پھسل رہا ہے۔ اگر اس میں رکاوٹ ڈالنے والی لمبے لمبے پہاڑوں کیقوت میخوں کی شکل میں موجود نہ ہوتی تو یہ رفتار بڑھ کر سالانہ کئی کلو میٹر تک پہنچ جاتی۔‘‘[المعجزۃ القرآنیۃ ۲۲۹] بعض معاصر مفسرین نے اسی معنی کے گردا گرد سرگردانی کی ہے؛ اگر و تشبیہ مجاز کی طرف مائل نہ ہوتے تو صحیح معنی تک رسائی حاصل کرلیتے۔ علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ اوتاد وَتِدٌ کی جمع ہے۔ (واؤ پر زبر اور تاء کے نیچے زیر)۔اس سخت کھونٹے [یا لکڑی ] کو کہتے ہیں جس کا نچلا حصہ بالائی حصہ کی نسبت زیادہ گہرا ہو۔ اسے خیمہ کی طنابیں کسنے کے لیے زمین میں گاڑا جاتا ہے۔ خیمے کی وسعت کے حساب سے اس میں کئی طنابیں ہوتی ہیں۔پہاڑوں کے متعلق یہ بتایا جانا کہ یہ کھونٹے ہیں؛ یہ انتہائی بلیغ تشبیہ ہے۔ یعنی پہاڑ ان کھونٹوں کی طرح ہیں۔‘‘ اور یہاں پر پہاڑوں کا ذکر کرنے کی وجہ اصل میں زمین کا تذکرہ تھا جسے بچھونے سے تشبیہ دی گئی ہے؛ جو گھر کے اندر ہوتا ہے۔ پس جب بچھونے کا تذکرہ آنے سے ذہن میں گھر کا
Flag Counter