Maktaba Wahhabi

246 - 277
تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔‘‘ [البخاری: 676] ۲۔ اپنی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مسابقت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر پر نکلے؛ اس وقت میں ابھی نوخیز لڑکی تھی؛ ابھی گوشت نہیں چڑھا تھا؛ او رنہ ہی میں موٹی ہوئی تھی۔ تو آپ نے لوگوں سے کہا: آگے نکل جاؤ۔ لوگ آگے نکل گئے۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’آؤ دوڑ لگاتے ہیں۔‘‘ میں نے آپ کے ساتھ دوڑ لگائی تو میں سبقت لے گئی۔‘‘ آپ خاموش ہوگئے۔ حتی کہ جب مجھ پر بھی گوشت چڑھ گیا؛ اور میں موٹی ہوگئی؛ اور یہ بات ہی بھول گئی۔ تو ایک بار پھر آپ کے ساتھ سفر پر جانے کااتفاق ہوا۔ تو آپ نے لوگوں سے کہا: آگے نکل جاؤ۔ لوگ آگے نکل گئے۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’آؤ دوڑ لگاتے ہیں۔‘‘ میں نے آپ کے ساتھ دوڑ لگائی توآپ سبقت لے گئے؛ اور ہنسنے لگے؛ اور آپ ساتھ ہی یہ بھی فرمارہے تھے: ’’یہ اس باری کا بدلہ ہے۔‘‘ [احمد 7؍377] ۳۔ آپ اپنی بیویوں کا غصہ برداشت کرتے تھے؛ اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے: نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : ’’ایک بار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کی اجازت چاہی۔ آپ نے سنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونچی اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھیں۔ توحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں دوبارہ یہ نہ دیکھوں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز میں بول رہی ہو۔‘‘[اورحضرت عائشہ کو تھپڑ مارنا چاہا] تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیچ میں آ گئے،اور انہیں بچا لیا۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ غصہ میں باہر نکل گئے توآپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو راضی کرنے کے انداز میں فرمایا:
Flag Counter