Maktaba Wahhabi

73 - 277
تعبیر کیا جاتا ہے جس کا لازمی اثر ظاہر میں جلد پر رونگٹے کھڑے ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ [التحریروالتنویر ۱؍۳۶۸۷ ] اس قرآن کی قریش کے نفوس میں شدت تاثیر کی وجہ سے وہ آپس میں ایک دوسرے کو بہت سخت نصیحتیں کیا کرتے تھے کہ وہ یہ قرآن ہر گز نہ سناکریں۔ قریش کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ ، فَلَنُذِیقَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَذَابًا شَدِیْدًا وَّلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ،} [فصلت ۲۶۔ ۲۷] ’’اور کافر وں نے کہا:یہ قرآن نہ سنا کرو اوراس میں شور مچایا کرو تاکہ تم غالب رہو۔سو ہم بھی کافروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے اور ان کے برے اعمال کی بہت سخت سزا دیں گے۔‘‘ یہ تاثیر عملی طور پر ان لوگوں کے لیے ظاہر ہو جاتی ہے جو خود اس تاثیر کا ادراک کرنا چاہتے ہوں۔اس کے لیے انہیں صرف اتنا ہی کرنا پڑے گا کہ کسی قاری سے اچھی طرح کان لگا کر قرآن کی تلاوت سنو۔ یا پھر ریکارڈ شدہ تلاوت سنو۔ تو آپ کو وہ عجیب مشاہدہ اور احساس ہوگا جس سے یہ یقین آجائے گا کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ سامعین کے نفوس میں قرآن کی تاثیر سے متعلق فرماتے ہیں: ’’بیشک آپ کوئی کلام ایسا نہیں سنیں گے خواہ وہ نظم کی صورت میں ہو یا نثر کی صورت میں ؛ کہ وہ آپ کے کانوں سے ٹکرائے اور دل تک اثر کر جائے۔ اور فی الفور دل میں اس کی لذت اور حلاوت محسوس ہو۔ اور پھر اس کے جمال و جلال تک کسی دوسرے کلام کی پہنچ ؍رسائی ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘ اس سے دلوں کو خوشخبری ملتی ہے؛ اور شرح صدر ہوتا ہے؛ حتی کہ جب نفس اس کلام سے اپنا حصہ لے لیتا ہے تو بے چینی اورتڑپ محسوس کرتا ہے ؛ اور اس پر قلق و
Flag Counter