Maktaba Wahhabi

102 - 177
سنتے رہے، انہیں اس کے حالتِ اسلام میں فوت ہونے کے بارے میں شک نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی مجلس میں گفتگو سن کر وہ اسلام کو اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔‘‘ رضی اللّٰهُ عنہ وأرضاہ۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہے، کہ بنو عبد الاشہل کی مکہ میں آمد کی خبر سن کر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس ان کے پاس جاکر انہیں دعوتِ اسلام دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا انتظار نہ کیا، کہ وہ پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور پھر انہیں پیغام حق پہنچایا جائے۔ فصلوات ربی وسلامہ علیہ۔ اس واقعہ میں دیگر تین فوائد: ۱: توحید و رسالت کے بیان سے آغازِ دعوت۔ ۲: دعوتِ دین میں قرآن کریم سے استفادہ۔ ۳: ہدایت دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہونا، دعوت کے مخاطبِ اول کی ہدایت سے محرومی اور وفد کے ایک نو عمر جوان کا قبولِ حق۔ -۹- مکی دور میں موسم حج میں منی و عرفات میں دعوتِ دین دینا لوگ زمانہ جاہلیت میں بھی حج کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر لوگوں کے اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں منی و عرفات میں دعوتِ حق پہنچاتے۔ اس بارے میں ذیل میں چار مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
Flag Counter