Maktaba Wahhabi

137 - 160
فَأَمْھِلْ حَتَّی تَقْدَمَ الْمَدِیْنَۃَ،فَإِنَّھَا دَارُ الْہِجْرَۃِ وَالسُّنَّۃِ،فَتَخْلُصَ بِأَھْلِ الْفِقْہِ وَأَشْرَافِ النَّاسِ،فَتَقُوْلُ مَا قُلْتَ مُتَمَکِّنًا،فَیَعِيْ أَھْلُ الْعِلْمِ مَقَالَتَکَ،وَیَضَعُوْنَھَا عَلیٰ مَوَاضِعِھَا۔‘‘ ’’ اس پر میں نے کہا:’’ اے امیر المؤمنین!ایسے نہ کیجیے۔[حج کے] موسم میں کم سمجھ اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے،تو آپ کے قریب وہی لوگ زیادہ ہوں گے۔اور مجھے یہ اندیشہ ہے،کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں،اڑانے والے اس بات کو پھیلادیں،لیکن وہ اس کو اچھی طرح یاد نہ رکھ سکیں،اور نہ ہی اس کا درست مفہوم بیان کرسکیں گے۔مدینہ [طیبہ] پہنچنے تک انتظار کرلیجیے،کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے،وہاں آپ کو دینی سمجھ والے اور معزز لوگ ملیں گے اور آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ فرماسکیں گے۔علم والے آپ کی باتوں کو یاد رکھیں گے اور ان کا صحیح مطلب بیان بھی کریں گے۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ أَمَا وَاللّٰہِ!إِنْ شَائَ اللّٰہُ لَأَقُوْمَنَّ بِذٰلِکَ أَوَّلَ مَقَامٍ أَقُوْمُہُ بِالْمَدِیْنَۃِ۔‘‘[1] ’’ ہاں،واللہ!میں ان شاء اللہ مدینہ [طیبہ] میں پہلا خطبہ اسی بارے میں دوں گا۔‘‘ پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد پہلا خطبہ جمعہ اسی بارے میں
Flag Counter