Maktaba Wahhabi

126 - 160
پڑے۔‘‘ مذکورہ بالا وصایا مبارکہ کی گونا گوئی اور تنوع اس پر دلالت کرتا ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وصیت طلب کرنے والے حضرات صحابہ کے حالات سے آگاہ تھے۔اور وصیت فرماتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کی حالت کو پیش نظر رکھا،اور اسی لیے ہر ایک کے لیے اس کے مناسب حال وصیت فرمائی۔واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔[1] ب:ایک جیسے سوال کے باوجود فتویٰ میں اختلاف: دعوت و تربیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب لوگوں کے احوال کا خیال رکھنے کے دلائل میں سے ایک یہ ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی سوال کرنے والے دو آدمیوں کو،ان کے حالات کے اختلاف کی بنا پر،ایک دوسرے سے مختلف فتویٰ دیتے تھے۔ذیل میں اس بارے میں تین مثالیں ملاحظہ فرمائیے: ۱:امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ایک نوجوان شخص آیا اور اس نے کہا:’’ یا رسول اللہ!’’ أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ ‘‘ ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیا میں روزہ کی حالت میں بوسہ دے سکتا ہوں؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:’’ لَا ‘‘ ’’ نہیں۔‘‘ پھر ایک بوڑھا شخص آیا اور پوچھا: ’’ أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ ‘‘ ’’ کیا میں روزے کی حالت میں بوسہ دے سکتا ہوں؟ ‘‘
Flag Counter