Maktaba Wahhabi

235 - 402
گوندلوی اور مولانا محمد عبداﷲ کی تحقیقی و علمی گہرائی اور مولانا محمد اسماعیل کی محدثانہ خطابت کا رنگ ڈھنگ قاضی صاحب کی ذات میں دیکھا جاتا تھا۔وہ اگر زیادہ عرصہ دینی مدارس میں تدریسی فریضہ انجام دیتے تو ان کی علمیت مزید نکھرتی،لیکن وہ سرکاری اداروں اور کالج کی دنیا میں چلے گئے،جہاں کا طرزِ تدریس اور نصاب وغیرہ کسی دوسرے انداز کا ہے۔بہرحال ان حلقوں میں بھی ایسی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی سلسلے میں جب قاضی صاحب لاہور ریلوے روڈ پر گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی میں پروفیسر تھے تو وہ کالج سے فارغ ہو کر مرکزی جمعیت کے دفتر انار کلی ایبک روڈ حدیث منزل پر تشریف لے آتے۔راقم الحروف اس زمانے میں 74ء سے لے کر 84ء تک ’’اہلِ حدیث‘‘ کے ادارتی سٹاف میں شامل رہا تھا۔ادارۂ تحریر میں قاضی صاحب میرے خصوصی رفقا میں سے تھے۔وہ اکثر ادارتی کالم بھی لکھتے اور وقت کے اہم پیش آمدہ سیاسی احوال پر تبصرہ بھی فرماتے،جنھیں بہت پذیرائی ملتی اور صحافتی دنیا میں سراہا جاتا۔ گوجرانوالہ میں شیخ الحدیث مولانا محمد عبداﷲ کی سرپرستی میں کبھی ہفتہ وار علمی مجلسِ مذاکرہ منعقد ہوا کرتی تھی،جس میں شہر کے نوجوان علما پہلے سے دیے گئے موضوع پر تیاری کر کے آتے اور بحث و مباحثے میں شریک ہوتے،ان میں ہمارے قاضی صاحب ہمیشہ امتیازی شان رکھتے اور وہ مطالعہ و تحقیق سے بھرپور خطاب فرماتے۔خود مولانا محمد عبداﷲ ان کی تحسین و توصیف فرماتے۔مجلس میں موجود علما اور عام سامعین ان کے طرزِ بیان سے یکساں مستفید ہوتے۔وہ عام تبلیغی جلسوں کے دھواں دھار مقرر تو نہیں تھے،البتہ ملکی سطح اور فکر و نظر کی اعلیٰ کانفرنسوں اور اجلاسوں میں ان کا سلجھا ہوا اور سلیس زبان میں خطاب ہوتا۔اہلِ علم و دانش اور باشعور
Flag Counter