Maktaba Wahhabi

42 - 108
یہاں ان لوگوں سے مراد مدینہ کے یہود ہیں۔ جب رسولِ اکرم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے یہودیوں اور دوسرے مشرک قبائل سے معاہدات کی داغ بیل ڈالی جو بعد میں ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہود سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاہدہ کیا اس کی اہم دفعات یہ تھیں۔ (۱) مسلمان اور یہود آپس میں امن و آشتی سے رہیں گے۔ کوئی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی نہیں کرے گا۔ ان کے تعلقات خیر خواہی اور فائدہ رسانی کی بنیاد پر ہوں گے۔ (۲) اگر مدینہ پر کوئی بیرونی حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود دونوں مل کر اس کا دفاع کریں گے۔ اخراجات بھی حصہ رسدی ادا کریں گے۔ (۳) یہود اپنے جھگڑوں کا اپنی شریعت کے مطابق خود ہی فیصلہ کریں گے۔ ہاں اگر وہ چاہیں تو اپنے مقدمات رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے لا سکتے ہیں۔ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ہوا فیصلہ ان پر نافذ العمل ہوگا۔ (۴) قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔ (۵) کوئی آدمی اپنے حلیف کی وجہ سے مجرم نہیں ٹھہرے گا۔ (۶) اس معاہدہ کے سارے شرکاء پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی اور کشت وخون حرام ہوگا۔ (۷) اس معاہدہ کے فریقوں میں اگر کوئی جھگڑا ہو جائے تو اس کا فیصلہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے۔ (ابنِ ہشام‘ جلد اوّل) یہود کے تین قبائل مدینہ میں آباد تھے۔ تینوں نے اس معاہدہ کو باری باری تسلیم کر لیا- لیکن اپنی موروثی عادت کے مطابق بارہا اس معاہدہ کی خلاف ورزیاں کیں۔ انہوں نے اوس و خزرج کے درمیان دوبار عداوت ڈالنے کی کوشش کی۔ منافقوں کے ساتھ مل کر خفیہ اور معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ ایک مسلمان عورت بنو قینقاع کے بازار میں ایک سنار کے ہاں گئی تو اسے لوگوں نے ازراہ شرارت ننگا کر دیا۔ جس پر فریقین میں بلوہ ہوگیا۔ غزوہ بدر کے بعد کعب بن اشرف خود مکہ گیا اور مشرکین مکہ کو مسلمان کے خلاف جنگ پر
Flag Counter