Maktaba Wahhabi

44 - 108
﴿فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ ﴾[1] (اگر کوئی شخص دوسرے پر اعتماد کرے تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے قرض خواہ کی امانت واپس کرنا چاہیے ا ور اللہ سے ڈرنا چاہیے۔جو اس کا رب ہے۔) اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثراپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے: «لَااِیْمَانَ لِمَنْ لَااَمَانَةَ له» (اس آدمی کا کوئی ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں ہے۔) اللہ تعالیٰ نے مومنین کی صفات بیان فرمائیں۔ ارشاد ہے: ﴿وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ Ď۝ۙ﴾[2] (اور وہ لوگ (مومن) اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ رکھتے ہیں۔) اس کے علاوہ خوشی و تنگ دستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‘ غصہ کو پی جانا‘ اور لوگوں کو قدرت کے باوجود معاف کر دینا بھی تقویٰ کی علامات ہیں[3]۔ جو شخص وعدہ پورا کرنا چاہے تو اللہ اس کا مددگار ہوتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا۔ اس نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفیاں قرض مانگیں۔ اس نے کہا اچھا گواہوں کو بلا تاکہ میں ان کے سامنے دوں۔ اس نے کہا کہ اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ کہنے لگا اچھا ضمانت دے۔ تو پھر کہنا لگا کہ اللہ ہی ضامن ہے۔ تو اس نے ہزار اشرفیاں اس کے وعدے پر دے دیں۔ جس نے قرض لیا تھا اس نے سمندر کا سفر کیا اور اپنا کام پور ا کر کے یہ چاہا کہ جہاز پر سوار ہو کر اپنے وعدہ پر پہنچ جائے لیکن کوئی جہاز نہ ملا۔ آخر اس نے ایک لکڑی کریدی۔ اس میں ہزار اشرفیاں اور ایک خط رکھ کر بند کر دیا اور کہنے لگا۔ یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ہزار اشرفیاں قرض لیں تھیں اس نے تیری گواہی اور ضمانت کو قبول کر لیا۔ میں نے بہت کو شش کی کہ کوئی جہاز ملے۔ تاکہ قرض وعدہ پر واپس کردوں۔ لیکن جہاز نہیں
Flag Counter