Maktaba Wahhabi

54 - 108
قبیلے کمزور قبیلے کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے تھے۔ طاقتور قبیلہ قصاص کے طور پر اپنے ادنیٰ مقتول کے بدلے آزاد کا‘ اپنی مقتول عورت کے بدلے مرد کا مطالبہ کرتا۔ اگر کمزور قبیلے کا فرد قتل ہو جاتا تو طاقتور قبیلہ اس کے برعکس کرتا یعنی ان کے معزز مقتول کے بدلے اپنے قبیلہ کا ادنیٰ آدمی آزاد کے بدلے غلام قصاص میں دیتے۔ یہودی قبائل‘ بنو نضیر‘ اور بنو قریظہ کے درمیان بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ بنو نضیر زیادہ طاقتور تھے۔ اس لیے اپنے حق میں امتیازی سلوک روا رکھتے تھے۔ حالانکہ ان کی شریعت میں جان کے بدلے جان یعنی صرف قاتل کو قصاص میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسلام نے ان تمام امتیازات کو ختم کر ڈالا اور یہ حکم دیا کہ مقتول کے قصاص میں صرف اس کے قاتل کو قتل کیا جائے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام‘ مرد ہو یا عورت۔ قاتل اور مقتول کی سماجی حیثیت کو کوئی اہمیت نہ دی جائے صرف قاتل کو ہی قتل کیا جائے اور یہی انصاف کی بات ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّـٰٓــاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ١٧٩؁﴾[1] (اے اہل دانش! تمہارے لیے قصاص میں ہی زندگی ہے۔ (یہ قانون اس لیے فرض کیا گیا) تاکہ تم بچ جاؤ۔ (پرہیز گار بنو) [وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ] یہ نہایت فصیح و بلیغ جملہ ہے۔ جس پر عرب کے فصحاء عش عش کر اٹھے۔ کیونکہ اس مختصر سے جملہ میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔ یعنی قصاص بظاہر تو موت ہے۔ مگر حقیقت میں پوری زندگی کا راز اسی میں ہے۔ عرب میں جو فصیح محاورہ استعمال ہوتا تھا۔ اَلْقَتْلُ اَنْفَی الْقَتْلَ یعنی قتل قتل سے ہی مٹتا ہے۔ مگر فی القصاص حیٰوۃ میں بدرجہازیادہ لطافت‘ فصاحت و بلاغت ہے اور مضمون بھی بہت زیادہ سما گیا ہے۔ دورِ جاہلیت میں اگر کوئی شخص مارا جاتا تو اس کے قصاص کا کوئی قاعدہ نہ تھا۔ لہٰذا اس کے بدلے دونوں طرف سے ہزاروں خون ہوتے۔ پھر بھی فساد کی جڑ ختم نہ ہوتی تھی۔ عرب کی تمام خانہ جنگیاں جو برس ہا برس تک جاری رہتی تھیں اور عرب کا امن و سکون تباہ ہو چکا تھا اس کی صرف یہی وجہ تھی۔
Flag Counter