Maktaba Wahhabi

115 - 227
۴: علامہ علی طنافسی بیان کرتے ہیں:’’ یَعْنِيْ عِرْضَہُ شِکَایَتُہُ ‘‘[1] … ’’ کہ وہ بطور شکوہ اس کی عدم ادائیگی کا لوگوں میں تذکرہ کرسکتا ہے۔ ‘‘ ۵: حافظ ابن حجر اس کی شرح میں رقم طراز ہیں:’’ یَجُوْزُ وَصْفُہُ کَوْنُہُ ظَالِمًا۔‘‘ [2] … ’’ اس کو(لوگوں کے روبرو)بطورِ ظالم ذکر کرنا جائز ہے۔ ‘‘ ۶: علامہ شرف الدین عظیم آبادی نے اس کی شرح میں قلم بند کیا ہے: ’’ وَالْمَعْنَی إِذَا مَطَلَ الْغَنِيُّ عَنْ قَضَائِ دَیْنِہِ یَحِلُّ لِلدَّائِنِ أَنْ یَغْلِظَ الْقَوْلَ عَلَیْہِ، وَیُشَدِّدَ عَلَیْہِ فِيْ ھَتْکِ عِرْضِہِ وَحُرْمَتِہِ، وَکَذَا لِلْقَاضِيْ التَّغْلِیْظُ عَلَیْہِ، وَحَبْسُہُ تَأْدِیْبًا لَہُ، لِأَنَّہُ ظَالِمٌ، وَالظُّلْمُ حَرَامٌ، وَإِنْ قَلَّ۔ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ۔ ‘‘[3] ’’ معنی یہ ہے، کہ جب دولت مند قرض کی واپسی میں لیت و لعل کرے، تو قرض خواہ کے لیے جائز ہے، کہ اس کے ساتھ سخت کلامی کرے اور اس کی بے عزتی اور بے حرمتی میں شدت کا رویہ اختیار کرے، اس طرح قاضی کو بھی تأدیب کی غرض سے اس کے ساتھ سخت کلامی کرنے اور اس کو قید کرنے کا حق ہے، کیونکہ وہ ظالم ہے اور ظلم حرام ہے، اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ واللہ أعلم۔ ‘‘ ۷: شیخ شعیب ارناؤوط لکھتے ہیں: ’’ أَرَادَ بِعِرْضِہِ لَوْمَہُ وَذَمَّہُ، وَوَصْفَہُ بِسُوْئِ القَضَائِ۔ ‘‘[4] ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا[اس کی عزت کے حلال ہونے]سے مقصود یہ ہے،
Flag Counter