Maktaba Wahhabi

120 - 227
کو قید نہ کیا جائے، درست معلوم ہوتا ہے۔ یہی رائے امیر المؤمنین حضرت علی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کی تھی۔ حضرت حسن بصری نے بھی اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ امام بیہقی نے حضرت ابوجعفر سے روایت نقل کی ہے: ’’ أَنَّ عَلِیًّا رضی اللّٰه عنہ قَالَ:’’ إِنَّمَا الْحَبْسُ حَتَّی یَتَبَیَّنَ الْاِمَامُ۔ فَمَا حَبَسَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ جَوْرٌ۔ ‘‘[1] ’’ بلاشبہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ قید تو حقیقی صورتِ حال سے امام کی آگاہی تک ہے۔ اس کے بعد قید میں ڈالنا ظلم ہے۔ ‘‘ مراد یہ ہے، کہ ادائیگی نہ کرنے والے مقروض کو اس کی حقیقی صورت حال سمجھنے کی غرض سے قید کیا جائے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے، کہ وہ تنگدست ہے، تو پھر اس کو قید سے نکال دیا جائے۔ ایسی حالت میں اس کو قید رکھنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ظلم ہے۔ ان کا ادائیگی نہ کرنے والے مقروضوں کے ساتھ معاملہ بھی ان کے اسی فرمان کے مطابق تھا۔ [2] مذکورہ بالا روایت پر امام بیہقی نے درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ حَبْسِہِ إِذَا اتُّھِمَ وَتَخْلِیَّتُہُ حَتَّی عُلِمَتْ عُسْرَتُہُ وَحَلَفَ عَلَیْھَا][3] [(عدم ادائیگی کے)الزام کی وجہ سے قید کرنے، اور اس کی تنگدستی کے معلوم ہونے اور اس کے بارے میں حلف اُٹھانے کی بنا پر اس کو چھوڑنے کے متعلق باب] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے موقف کے متعلق امام ابن ابي شیبہ نے ابی المہزم سے
Flag Counter