Maktaba Wahhabi

133 - 227
ادائیگی کے لیے بیچنا جائز ہے، خواہ وہ مال قرض کی واپسی کے لیے کافی ہو یا نہ ہو۔ البحر[کتاب]کے مؤلف نے اہل بیت، شافعی، مالک، ابویوسف اور محمد کا یہی مذہب ذکر کیا ہے،[البتہ]انھوں نے حاکم کے مال میں تصرف سے منع کرنے کے جواز کے لیے قرض خواہوں کے مطالبہ کی قید لگائی ہے۔ شافعی سے روایت کیا گیا ہے، کہ مصلحت کی خاطر، اس پابندی کا[قرض خواہوں کے]مطالبہ سے پہلے لگانا بھی صحیح ہے۔ [کتاب]البحر میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے، کہ زید بن علی، ناصر اور ابوحنیفہ کے نزدیک مقروض کو اپنے مال میں تصرف سے روکنا درست نہیں، بلکہ حاکم اس کو قید میں ڈال دے، یہاں تک کہ وہ[قرض]ادا کردے۔ اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد:’’ مسلمان کا مال حلال نہیں۔ ‘‘[یعنی اس کا لینا جائز نہیں]… الحدیث۔ سے دلیل پکڑی گئی ہے،[لیکن]اس حدیث کی معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث سے تخصیص ہوچکی ہے۔[لہٰذا اس سے حدیث سے مقروض کو مال میں تصرف سے روکنے کی ممانعت پر ان حضرات کرام کا استدلال درست نہیں۔]واللہ تعالیٰ أعلم۔ امیر صنعانی لکھتے ہیں: ’’ وَالْحَدِیْثُ دَلِیْلٌ عَلَی أَ نَّہُ یَحْجُرُ الْحَاکِمُ عَلَی الْمَدِیْنِ التَّصَرُّفَ فِيْ مَالِہِ، وَیَبِیْعُہُ عَنْہُ لِقَضَائِ غُرَمَائِہِ۔ ‘‘[1] ’’[یہ]حدیث اس بات کی دلیل ہے، کہ حاکم مقروض کو اپنے مال میں تصرف سے روک دے گا اور اس کے مال کو قرض خواہوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے اس کی طرف سے فروخت کردے گا۔ ‘‘
Flag Counter