Maktaba Wahhabi

70 - 444
’’اور نکاح کی گرہ باندھنے کا قصد مت کرو جب تک کہ عدت نہ گزر جائے۔‘‘ اور العقیدہ کا (اہل لغت کے نزدیک) معنی یوں بھی کیا جاتا ہے۔ الحُکمُ الّذِي لایُقبل الشک فِیہ لدی مُعتقِدہ … (کسی بھی ذات کی نسبت) وہ فیصلہ کہ جس کے متعلق اس فیصلہ و اعتقاد کے رکھنے والے کے ہاں اس بارے میں شک قبول نہ کیا جائے۔ ‘‘ اور دین میں عقیدہ کا مطلب ہوتا ہے عمل کے بغیر صرف دلی اعتقاد۔ جیسے اللہ رب العزت کی ذات کے وجود اقدس اور نبیوں کی بعثت (فرشتوں اور جنوں کا باقاعدہ الگ الگ ایک مخلوق ہونا وغیرہ وغیرہ) کے متعلق دل سے عقیدہ واعتقاد رکھنا۔ عقیدہ کی جمع ’’عقائد‘‘ آتی ہے۔ [1] خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ :’’ جس بات اور جس نظریہ پر انسان اپنے دل کے قصد و جزم کے ساتھ مضبوط گرہ باندھ لے اور اس پر وثوق وپختگی اختیار کر لے …وہ عقیدہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ حق ہو یا باطل۔‘‘ (یوں اس کی دو قسمیں ہوگئیں :عقیدہ ٔ حق اور باطل عقیدہ۔) اصطلاحی معنی:اصطلاحًا عقیدہ کا معنی یہ ہے کہ :وہ اُمور جن کے لیے واجب ہے کہ ان کی تصدیق دل کرے اور ان پر نفس مطمئن ہو حتی کہ ایسا یقینِ محکم حاصل ہو جائے جس میں شک و شبہ ملا ہوا، نہ ہو۔‘‘ یعنی عزم صمیم وجزم عمیق والا ایسا ایمان کہ عقیدہ رکھنے والے کے پاس شک و شبہ پھٹکنے بھی نہ پائے۔ اس کے لیے واجب ہے کہ یہ حالت حقیقت وواقعہ کے عین مطابق ہو۔ (فرضی اور صرف سنی سنائی نہ ہو۔) جو نہ ہی تو شک کو قبول کرے اور نہ ہی گمان کو۔ اور اگر اس ضمن میں علم یقینِ جازم (پختہ ارادے والے یقین) کے درجہ کو نہیں پہنچتا تو اس کا
Flag Counter