Maktaba Wahhabi

63 - 67
اب اس موقعہ پر کسی صاحب کا یہ اعتراض کرنا کہ نمرود اگر جواباً کہتا کہ مشرق سے میں نکالتا ہوں اگر خدا ہے تو اس سے یہ درخواست کر کے مغرب سے نکلوا۔اس امر کی دلیل ہے کہ انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جواب کو نہیں سمجھا اس وجہ سے بالکل بے معنی اعتراض کر دیا۔ پہلا جز تو اس لئے غلط ہے کہ نمرود کے وجود سے پہلے بھی آفتاب مشرق ہی سے نکلتا تھا لہٰذا وہ جس نظام کے ماتحت پہلے سے نکل رہا ہے آج بھی اسی کے ما تحت نکل رہا ہے اس کے متعلق ایسے شخص کا جو کل کا پیدا ہوا ہو یہ دعویٰ کرنا کہ اس کو مشرق سے میں نکالتا ہوں بداھت کے خلاف ہوتا جو زبان پر لانے کے بھی قابل نہ تھا۔ جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے رب کی تعریف میں شمسی نظام کے استیلاء کو پیش کیا تھا اور بالمقابل یہ صورت پیش کی تھی کہ اپنے استیلاء کے ثبوت میں شمسی نظام کو اس طرح بدل دوکہ پہلے نظام کے خلاف کسی دوسری سمت سے آفتاب نکالو خواہ مغرب سے ہو پس مقصود بالذات شمسی پراستیلاء تھا۔ اس مطالبہ ابراہیمی میں آفتاب کو مغرب سے نکالنے کی کوئی خصوصی اہیمت نہیں تھی وہ تو ظہور استیلاء کی صرف ایک وقوعی شکل تھی۔اس کی مثال یوں سمجھنی چاہیئے کہ کسی کے پڑھے لکھے ہونے کے جھوٹے ادعا پر کوئی یہ کہے کہ سچے ہو تو اردو کی پہلی کتاب پڑھ دو۔ مقصد اس مطالبہ کا صرف پڑھنا ہوتا ہے اردو کی پہلی کتاب کو مطالبہ سے خصوصی تعلق نہیں ہوتا ہے بلکہ اس مطالبہ کے ظہور کے لئے اردو کی پہلی کتاب صرف ایک وقوعی
Flag Counter