Maktaba Wahhabi

141 - 277
فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ } [الانفال67۔69] ’’ نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک ملک میں اچھی خون ریزی نہ ہو جائے ۔ تم دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور با حکمت ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لے لیا ہے اس پر تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے، خوب کھاؤ پیو اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘ یہ آیات سن دو ہجری میں غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئیں۔ یہ پہلا غزوہ تھا جو مسلمانوں اور ان کے دشمنان مشرکین قریش کے درمیان پیش آیا۔اس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اورانہوں نے تقریباً ستر کے لگ بھگ مشرکین کو گرفتار کرلیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مشورہ کیا تو وہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے: اول: ایک گروہ کا خیال تھا کہ تمام قیدیوں کو قتل کردیا جائے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے اور اہل ایمان کو اذیتیں دی ہیں۔ انہیں ان کے گھروں سے نکالا ہے۔ پس ایسے لوگوں کو کسی بھی صورت میں معاف نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت کی یہی رائے تھی۔ دوم: دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ ان سے فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔کیونکہ یہ ان کے اپنے اور خاندان کے لوگ تھے۔ مسلمان فقراء اس وقت بہت ضرورت مند تھے۔بالخصوص وہ مہاجرین جنہیں ان کے گھروں اور اموال سے نکال گیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ایک جماعت کی یہی رائے تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی رائے کی طرف مائل ہوگئے۔ بشری استطاعت اوربس میں یہی تھا کہ احوال کے مناسب رائے اختیار کی جائے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ ان کے ایمان کی ؍اسلام قبول کرنے کی صورت میں انجام پذیر
Flag Counter