Maktaba Wahhabi

142 - 277
ہوسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہی تھا کہ اس رائے پر عمل ہوجائے ؛ تو عتاب کو مؤخر کیا گیا۔ اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارادہ یہ ہوتا کہ ان سے کچھ نہ لیا جائے؛ [بلکہ ان کا کام تمام کردیا جائے] تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی بھی قسم کا حتمی فیصلہ ہونے سے پہلے اس کی ممانعت اتار دیتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عتاب کے نزول میں تاخیر ہونے میں ؛ اور دوسری بار ایسا کرنے کی ممانعت کا فیصلہ آنے میں اللہ تعالیٰ کی کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ان میں سے : ۱۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے نفوس میں کچھ خفیہ امور ایسے تھے جن کی اصلاح اور علاج اوران پرعتاب مقصود تھا۔اوریہ اس قسم کا اجتہاد ظہور پذیر ہونے کے بعد ہی ممکن تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ } [الانفال 67] ’’ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے۔‘‘ ۲۔ یہ کہ نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اوررسول ہیں؛ آپ کسی چیز میں مختار کل نہیں ہیں۔ شریعت کا تقرر اللہ عزوجل کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ ۳۔ یہ کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف اس کی تبلیغ کرنا ہے۔ ۴۔ بیشک اللہ تعالیٰ جو کچھ کونی قدری ارادہ فرماتے ہیں وہ واقع ہو کر رہتا ہے۔ اگرچہ وہ کام شرعی اعتبار سے نا پسند ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔ کیونکہ اس پر کئی حکمتیں مرتب ہوتی ہیں۔ جن کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی شان نزول میں یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ ایک طویل حدیث میں ہے؛ آپ فرماتے ہیں: ’’ جب قیدیوں کو گرفتار کرلیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’ تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو؟‘‘
Flag Counter