Maktaba Wahhabi

157 - 277
أ۔ معاملات میں اصل اباحت ہے۔ ب: معاہدہ پورا کرنا واجب ہے۔بھلے یہ سیاسی معاہدہ ہو یا معاشرتی یا اقتصادی ۔یا پھر کسی دیگر نوعیت کا معاہدہ ۔ ج: معاملات میں سچائی۔ د: دھوکہ بازی [ملاوٹ ] سے اجتناب۔ ھ: دوسرے کو لاعلمی میں رکھنے اور نوسر بازی کرنے کی حرمت۔ پھر اس کے بعد کئی معاملات اور اعمال اسلام نے حرام ٹھہرائے ہیں؛ ان میں سے: ۱۔ سود ۔:اس کی دو اقسام ہیں : اول: قیمت کی چیز جیسے سونے اور چاندی کو نقدیاادھار پر بڑھا کر بیچنا۔ اس لیے کہ قیمت کی چیزیں تو تجارتی ہوتی ہیں جو عالمی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہیں۔ جوکچھ آج کل ہم عالمی منڈی میں تجارت دیکھتے ہیں کہ مال کے بدلے مال کو نقد یا ادھار پر بڑھا کر بیچا جارہا ہے ؛ یا پھر قرض کی ادائیگی میں وقت زیادہ ہونے کی وجہ سے رقم بڑھا دی جاتی ہے؛ قرآن کریم نے ان تمام چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے۔ ٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ درہم اور دینار جو کہ تجارتی میزان ہیں؛ ان کو بیچنے کی ممانعت کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بیشک قیمت سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ مال کے لیے معیار ہوں۔ ان کے ذریعہ سے اموال کی مقدار کی معرفت تک رسائی ہوتی ہے۔ ان سے بعینہ فائدہ حاصل کرنا مقصود نہیں ہوتا۔ جب انہیں آپس میں ایک دوسرے کے بدلے میں ایک مقررہ وقت تک کے لیے بیچا جائے اور اس سے مقصود تجارت ہوتو اس سے قیمتوں کے اصل مقصد میں تناقض پیدا ہوتا ہے۔اس میں مالک کا بدلنا اورمال کا قبضہ میں لینا اس لیے شرط ہے تاکہ اپنے مطالب کے حصول تک پہنچنے کے مقاصد کی تکمیل ہو۔ اور ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب مال کو اپنے قبضہ میں کرلیا جائے؛ نہ کہ مال کو
Flag Counter