Maktaba Wahhabi

158 - 277
کسی کے ذمہ ثابت کرنے سے۔ حالانکہ یہ مال بھی دونوں اطراف سے قیمت ہی ہوتا ہے۔پس صاحب شریعت علیہ السلام نے منع فرمایا ہے کہ : قیمت کے بدلے قیمت ایک مقررہ مدت تک کے لیے فروخت کردی جائے۔جب نقدی اس کی قیمت بن گئی تو یہی معانی نقدی میں منتقل ہو گئے۔ تو [نقدی کو نقدی]قیمت کو قیمت کے بدلے ادھار پر نہیں بیچاجائے گا۔‘‘ [الفتاوی 29؍468] ٭ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے سود حرام ہونے کی حکمت میں تفصیل کے ساتھ کلام کیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے وہ حوادثات اور مسائل نہیں دیکھے تھے جہاں تک آج کے سودی معاشرے پہنچے ہوئے ہیں۔ آپ کی گفتگو سے سود کو حرام کرنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ایک پہلو منکشف ہوتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ درہم اور دینار سودے کی قیمت ہیں۔ اور قیمت ہی وہ معیار ہے جس کی بنیاد پر کسی چیز کی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔پس اس کی ان حدود اور ضوابط کا تعین ہونا ضروری ہے جس میں اتار چڑھاؤ نہ آئے۔کیونکہ اگر روپیہ پیسہ اتار چڑھاؤ کا شکار ہوجائے تو پھر کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہے گی جس کی بنیاد پر ہم سودے اور مال کی قدر و قیمت کا اندازہ[تعین] کرسکیں۔ بلکہ تمام کی تمام چیزیں فروخت کا مال بن جائیں گی۔ اموال کی قیمتوں کے تعین کے لیے لوگوں کی حاجت ایک انتہائی اہم اور ضروری چیز ہے۔ اورایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نرخ نہ ہوں جن سے قیمت کا پتہ چلے۔ اس کے لیے [ثمن] قیمت کا ہونا ضروری ہے جس سے چیزوں کی قدر و وقعت معلوم ہوسکے۔ اوروہ ایک ہی معیار پر باقی رہے۔ کسی دوسری چیز سے اس کی قیمت نہ لگائی جاسکے[بلکہ اس کی اپنی ہی قیمت ہو]۔اور اس میں اتار چڑھاؤ نہ ہو۔ ورنہ لوگوں کے معاملات میں فساد اوربگاڑ پیدا ہوجائے گا۔ پسماندگی بڑھ جائے گی؛ اور نقصان واقع ہوگا۔ جیسا کہ آپ اس وقت فساد اور بگاڑ دیکھتے ہیں جب روپیے پیسے کو
Flag Counter